اردو

urdu

ETV Bharat / international

میانمار کی فوجی حکومت کو کوئی ملک تسلیم نہ کرے: میانمار کے سفیر - فوجی حکومت کے رہنماؤں سے کہیں کہ وہ جمہوری اقدار کا احترام کریں

اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر کیو مو تون نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ 'میانمار کی فوجی حکومت کو کوئی ملک تسلیم نہ کرے اور فوجی حکومت کو جمہوری اقدار کا احترام کرنا ہی چاہیے'۔

refuse to recognize the military regime in myanmar and ask its leaders to respect the november election results
'میانمار کی فوجی حکومت کو کوئی ملک تسلیم نہ کرے'

By

Published : Mar 1, 2021, 7:55 AM IST

میانمار میں جمہوری حکومت کو ہٹاکر جبراً فوجی حکومت نافذ کرنے کی پوری دنیا میں سخت تنقید ہو رہی ہے۔

'میانمار کی فوجی حکومت کو کوئی ملک تسلیم نہ کرے'


اقوام متحدہ میں ظلم کی گونج اس وقت پھر سنائی دی جب میانمار کے اقوام متحدہ میں سفیر نے ہی اپنے یہاں ہوئے فوجی تختہ پلٹ کی زبردست مخالفت کردی۔

انہوں نے عالمی برادری سے فوجی حکومت کے خلاف سخت کارروائی کی مانگ کرتے ہوئے جمہوری حکومت کو فوری طور پر بحال کرنے کی مانگ کی۔

اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر کیو مو تون


اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر کیو مو تون نے کہا کہ وہ آنگ سان سوچی کی قیادت والی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے نمائندے ہیں۔ ان کی پارٹی نے جمہوری طریقے سے عوام کے انتخاب کے بعد فوجی حکومت کو ختم کرنے کے لیے حکومت بنائی تھی۔


انہوں نے سبھی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ فوجی تختہ پلٹ کی مذمت کریں اور منظوری دینے سے انکار کر دیں۔ فوجی حکومت کے رہنماؤں سے کہیں کہ وہ جمہوری اقدار کا احترام کریں۔

سفیر کیو مو تون نے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ فوجی بغاوت کی شدید مذمت کرتے ہوئے عوامی بیان جاری کریں۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: مظاہرہ کرنے والوں پر فورسز کا کریک ڈاؤن، 18 مظاہرین ہلاک

انہوں نے اپنی تقریر برمی زبان میں پیش کی اور انہوں نے ان لوگوں کا شکریہ ادا کیا جو بغاوت کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔

انہوں نے تقریر ختم کرنے کے بعد اقوام متحدہ میں تین انگلیوں سے سلامی پیش کی۔ تین انگلیوں کا سلوٹ میانمار میں مظاہرین بطور احتجاج کے طور پر کرتے ہیں۔

تون کے حیرت انگیز بیان سے نہ صرف تالیاں بجائی گئیں بلکہ اسپیکر کی طرف سے اسمبلی اجلاس میں تعریف بھی کی گئی جن میں یورپی یونین، اسلامی تعاون تنظیم کے نمائندے اور امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ بھی شامل تھے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details