چین کے ساتھ اپنی گہری دوستی کا اعادہ کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خاں نے کہا ہے کہ ایغور مسلمانوں پر عالمی برادری اور چین کا موقف بہت الگ ہے اور ہم اس معاملے پر چین کے مؤقف کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے چینی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو کبھی کم نہیں کرے گا، یہ کبھی نہیں ہوگا، پاکستان اور چین کے تعلقات بہت گہرے ہیں جتنا بھی دباؤ ہو ہمارے تعلقات تبدیل نہیں ہوں گے‘۔
سنکیانگ میں چین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ‘سنکیانگ کے حوالے سے مغربی میڈیا اور حکومتوں کے موقف اور چین کے مؤقف میں فرق ہے، ہم چینی مؤقف کو تسلیم کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان کے مستقبل کی اقتصادی ترقی کے لیے نہایت اہم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جلد گوادر کا دورہ کروں گا تاکہ سی پیک کے منصوبوں کی رفتار کا معائنہ کرسکوں گا اور جلد چین کے دورے کا بھی منتظر ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ’چین کے دورے میں پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے پر بات کروں گا’۔
پاکستان اور چین کے قریبی سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ’سی پیک کا اگلا مرحلہ پاکستان کے لیے بہت حوصلہ افزا ہے، ہمارے پاس خصوصی اقتصادی زون ہوں گے، ہمیں اُمید ہے کہ چینی صنعت ان خصوصی زونز کی طرف متوجہ ہوگی، ہم انہیں مراعات دیں گے‘۔انہوں نے کہاکہ ’پاکستان میں لیبر سستی ہے اور اُمید ہے کہ چینی صنعتکار اس طرف متوجہ ہوں گے‘۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کی عوام دوست پالیسی اور چین کی ترقی میں کردار کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مغربی جمہوریت کسی بھی معاشرے کی ترقی کا بہترین نظام ہے تاہم چین کی کمیونسٹ جماعت (سی پی سی) نے ایک متبادل نظام دیا ہے جس نے تمام مغربی جمہوریتوں کو مات دی ہے۔انہوں نے کہاکہ جس معاشرے میں حکمران طبقے کا احتساب ہو اور میرٹ ہو وہ کامیاب ہوتا ہے، اب تک یہ خیال تھا کہ جمہوریت کے ذریعے میرٹ پر حکمران منتخب ہوتے ہیں اور پھر اس قیادت کا احتساب بھی کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’تاہم سی پی سی نے انتخابی جمہوریت کے بغیر تمام مقاصد زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کیے ہیں‘۔
عمران خا ن نے کہا کہ ’کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران دیکھا کہ ان کا ٹیلنٹ کی تلاش اور پھر اس کی تربیت کرنے کا نظام کسی بھی انتخابی جمہوریت سے بہتر ہے‘۔
انہوں نے کہاکہ ’تیسری بات یہ ہے کہ یہ بہت لچکدار نظام ہے، جب وہ کوئی چیز تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو یہ نظام اس کی حمایت کرتا ہے‘۔