پاکستانی میڈیا کے مطابق شاہ محمود قریشی نے یہ تبصرہ برطانیہ کے آن لائن اخبار ’دی انڈیپنڈنٹ‘ کو انٹرویو کے دوران دیا ہے اور اس انٹرویو کی ویڈیو بدھ کے روز پاکستان کے سرکاری ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس پاکستان (اے پی پی) نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔
پاکستان مقامی طالبان کی شکل میں ایک بڑی گھریلو شورش کا مقابلہ کر رہا ہے جو تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے ساتھ ساتھ القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس کے خلاف ہے۔
قریشی نے کہا کہ اگر نئی افغان حکومت اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ٹی ٹی پی سے بات کر کے اور اگر ٹی ٹی پی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لینے اور عسکریت پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے پر آمادہ ہو اور وہ حکومت اور آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیں تو ہم انہیں معافی دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔
طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد افغانستان کے جیلوں سے ٹی ٹی پی کے متعدد رہنماؤں کی رہائی کے تعلق سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا "اگر وہ لوگ یہاں آکر ہمارے لیے مسائل پیدا کرنا شروع کردیں تو اس سے معصوم زندگیاں متاثر ہوگی اور ہم یہ نہیں چاہتے ہیں. "
وزیر خارجہ نے زور دیتے ہوئے کہا "لیکن جب تک وہ نہیں آتے اور پاکستان میں عسکریت پسندانی سرگرمیاں ختم نہیں ہوتی تب تک ہمیں تشویش ہے۔"
قریشی نے افغان طالبان انتظامیہ کے اس اعلان کو مثبت قرار دیا کہ وہ کسی بھی عسکریت پسند گروہ کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔اور پاکستان اس حوالے سے نظر رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلسل ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کے متعلق سابقہ اشرف غنی کی حکومت کو بتاتا رہا ہے لیکن انھوں نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ قریشی نے مزید کہا کہ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ افغان طالبان ان کی یقین دہانی پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔