امریکہ کے وزیرخارجہ مائک پومپیو نے کہا ہے کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ملک کا ایران کے تئیں رخ اور پالیسیوں میں شاید ہی کوئی تبدیلی ہو۔
وزارت خارجہ نے پیر کو کہا کہ مائک پومپیو نے میڈیا لائن کو دیے ایک انٹرویو میں یہ بات کہی۔
پومپیو نے کہا کہ 'ٹرمپ انتظامیہ کے کاموں سے متعلق امریکہ کو بے شمار حمایت حاصل ہے۔ مجھے پورے ملک سے کانگریس کے سیکڑوں ممبران کا خط ملا ہے،جن میں سبھی نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ اس طرح سے کام کرے جس سے ایران اسلحہ خریدنے اور فروخت کرنے کی حالت میں نہ ہو۔ ہم نے یہ کردکھایا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں دونوں سیاسی جماعتوں کی بے پناہ حمایت حاصل ہے'۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ جیسے یورپی یونین کے ملک ایران پر امریکی پالیسی سے مطمئن ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ بھلے ہی اسے عوامی پلیٹ فارم سے قبول نہ کریں۔
پومپیو نے کہا کہ 'مجھے امید ہے کہ اگر صدر ٹرمپ منتخب نہ کیے جاتے ہیں تو نائب صدر بڈین کے تحت جو ٹیم آئے گی اسے بھی خطرے کا احساس ہوگا جو ہم جھیلتے آئے ہیں۔ایسے میں وہ یقینی بنائے گی کہ امریکہ اور اسرائیل محفوظ ہیں۔امریکی صدر ڈولانڈ ٹرمپ نے پیر کو اوہیو میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران ایک مضبوط ملک ہو لیکن یہ نہیں چاہتا کہ اس کے پاس ایٹمی اسلحہ ہو'۔
ٹرمپ نے پیر کو ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس میں غیر ملکی ممالک، کارپوریشنوں اور لوگوں پر معاشی جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو اقوام متحدہ کے اسلحہ پابندی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
مسٹر پومپیو نے کہا کہ جب تک ایک جامع معاہدہ نہیں ہوجاتا تب تک امریکہ ایران کے خلاف پابندی کے تعلق سے انتہائی دباؤ بنانے والی مہم جاری رکھے گا۔