اردو

urdu

ETV Bharat / international

عراق: پورا گاوں کیسے ویران ہو گیا؟

سنہ 2017 میں دولت اسلامیہ کی شکست کے بعد بھی لوگوں کے دلوں سے بربریت وہ مناظر نہیں نکل سکے، جس کے وہ خود چشم دید گواہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تین برسوں کے بعد بھی وہ اپنے گھروں کی طرف دوبارہ نہیں لوٹ سکے ہیں۔

متعلقہ تصویر
متعلقہ تصویر

By

Published : Jan 14, 2020, 8:46 PM IST

عراق کے شمالی علاقے میں واقع بردیا گاؤں کی دکانوں پر تالے لگے ہیں، اور گاوں کے متعدد گھروں میں سناٹا پھیلا ہوا ہے، کیوں کہ ان گھروں کے باشندے کرد اور عرب سبھی اپنے گھروں کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

ویڈیو

یہاں کے لوگوں کو تین بار اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا، کیوں کہ سنہ 2014 میں دولت اسلامیہ کے عسکریت پسندوں نے حملہ کر کے لوگوں کی زندگی جہنم بنا دی تھی۔

سنہ 2017 میں دولت اسلامیہ کی شکست کے بعد بھی لوگوں کے دلوں سے بربریت وہ مناظر نہیں نکل سکے، جس کے وہ خود چشم دید گواہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تین برسوں کے بعد بھی وہ اپنے گھروں کی طرف دوبارہ نہیں لوٹ سکے ہیں۔

گاوں کے مُکھیہ خلیل مستو نے بتایا کہ لوگ گھر چھوڑ کر چلے گئے، کیوں کہ انہیں اپنی جان کا خطرہ تھا۔ اور وہ اب تک نہیں لوٹ سکے ہیں۔ وہ آج کردستان کے کسی علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ اس لیے یہ گاوں ویران ہو کر رہ گیا ہے۔

گھروں کی ویرانی کا ایک منظر

بغداد اور عراق کے پڑوسی ممالک کی طرف سے آزادانہ طور پر ریفرنڈم کو مسترد کیے جانے کے محض ایک ماہ بعد ہی لوگوں نے متنازعہ علاقہ چھوڑ دیا۔

ان کی عدم موجودگی نے اس گاؤں کو مفلوج کر دیا ہے، جو پہلے عربوں اور کردوں کے رہائش سے گل گلزار تھا۔

گاؤں میں رہنے والے 375 خاندانوں میں سے محض 37 خاندان ہی واپس لوٹ سکے ہیں، جن میں اکثریت عرب خاندانوں کی ہے۔

گاوں کے عرب باشندے ناصح قدیر کا کہنا ہے کہ یہاں حکومت اور شہریوں کے درمیان اعتماد اور یقین کا بحران ہے۔ ایک آشیانے بنانے کے لیے خطیر رقم خرچ کرنے والے کے لیے اپنا گھر چھوڑنا کتنا مشکل کام ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس گاوں کو ان کے پرانے مکینوں کی ضرورت ہے۔

خلیل مستو کا کہنا ہے کہ بردیا کے کرد باشندے اب بھی اپنا گاؤں چھوڑ کر کردستان کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔

ویران دوکانیں خوف کی داستان بیاں کر رہی ہیں

موصل شہر کے شمال مغرب میں 50 میل کے فاصلے پر ملک کے شمالی صوبے نینوا میں بردیا گاوں واقع ہے۔ یہ علاقہ عراقی حکومت اور کرد قیادت کے مابین متنازعہ مانا جاتا ہے۔

اگست سنہ 2014 میں دولت اسلامیہ کے قبضے کے چند ماہ بعد ہی کردوں پر مشتمل ایک جماعت 'پیش مرگہ' نے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔

اس دوران علاقے کے بیشتر عرب باشندے موصل چلے گئے تھے، جو اُس وقت دولت اسلامیہ کے زیر کنٹرول تھا۔ آخر کار پیش مرگہ نے موصل جانے ہونے والوں کو گاؤں واپس لوٹنے کی اجازت نہیں دی۔

جب یہ گاؤں پیش مرگہ سے حاصل کر لیا گیا، تو اس گاوں کے کرد باشندے اپنے پڑوسی عربوں سے بدلہ لینے کے خوف سے گاوں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ اب دیکھنے والی بات ہے کہ اس گاوں کے اصل باشندے کب تک اپنے گھروں کو واپس لوٹ کر اسے ایک خوشحال گاوں میں تبدیل کر سکیں گے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details