ماسکو فارمیٹ ڈائیلاگ کے تحت روس نے بدھ کے روز افغانستان کے بارے میں مذاکرات کی میزبانی کی جس میں طالبان، چین، بھارت، پاکستان، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے نمائندے بھی شرکت کر رہے ہیں۔
بدھ کو ہونے والی یہ عالمی کانفرنس ماسکو حکومت کی طرف سے وسطی ایشیا میں اپنا سفارتی اثر و رسوخ قائم رکھنے اور اسے بڑھانے کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔
روس نے افغانستان کے حکمران طالبان سے کہا ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حکومت کو تسلیم کرے تو انہیں انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا کی توقعات پر پورا اترنا ہوگا۔
اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے امریکہ کی نمائندگی نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا اور مغربی ممالک سے کہا ہے کہ وہ افغانستان کو نہ صرف روایتی انسانی امداد فراہم کریں بلکہ تنخواہیں بھی دیں۔
روسی وزیر خارجہ نے اپنے افتتاحی ریمارکس میں کہا کہ "ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب کو نہ صرف روایتی انسانی امداد فراہم کرنی چاہیے بلکہ افغانستان کے اہم شہریوں بشمول ڈاکٹروں، اساتذہ اور دیگر کے تنخواہوں کی ادائیگی میں بھی مدد کرنی چاہیے۔"
وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روس اگست کے وسط میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں حالات کو مستحکم کرنے کے تعلق سے طالبان کی کوششوں کو تسلیم کرتا ہے، لیکن وہ فی الحال اس گروپ کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔
لیکن انہوں نے طالبان پر زور دیا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے ایسی حقیقی حکومت کی ضرورت ہے جو میں ملک کے تمام نسلی گروہوں اور سیاسی قوتوں کے مفادات کی عکاسی کرے۔
ماسکو فارمیٹ ڈائیلاگ میں روس نے کہا ہے کہ طالبان کو اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے پڑوسیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔ لاوروف نے مزید کہا ، "متعدد دہشت گرد گروہ، سب سے پہلے داعش اور القاعدہ ملکوں کے مختلف حصوں میں ایک بار پھر مہلک حملے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
روسی وزیر خارجہ نے کہا "بدقسمتی سے منشیات کی پیداوار کا مسئلہ بدستور موجود ہے اور آج حقیقی خطرہ دہشت گردی اور منشیات سے متعلقہ سرگرمیاں ہیں جن میں بھیس بدل کر پڑوسی علاقے میں پھیلنے کی وجہ سے ہم وسط ایشیائی خطے کے بارے میں فکرمند ہیں ۔ "
لاوروف نے کہا ، "ہم افغان شہریوں کے ساتھ ایک ذمہ دارانہ رویے کی توقع کرتے ہیں۔ سب سے پہلے مغربی ممالک سے جن کی 20 سال افغانستان میں موجودگی نے موجودہ قابل رحم صورتحال کو جنم دیا اور افغانستان میں صنعتی اور معاشی میدان کو مضبوط بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔"
یہ مذاکرات طالبان کے سب سے اہم بین الاقوامی اجلاس میں سے ایک ہیں جب سے اس نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے۔