ڈیموکریٹک نائب صدر کی نامزد امیدوار کملا ہیرس نے امریکہ میں نسلی تفریق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'ہٹلر کے دور میں سیام فاموں کے خلاف ظلم کیا جاتا تھا، جس کا نام سن کر میرا دل دہل جاتا ہے'۔
کملا ہیرس نے نائب صدر مائیک پینس پر سخت حملے کے ساتھ پہلے نائب صدارتی بحث کا آغاز کیا۔
جب یہ بحث نسل پرستی کی طرف موڑ دی گئی تو پینس نے محکمۂ پولیس میں انتظامی بدنظمی کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 'اس سے ٹرمپ انتطامیہ کا کوئی تعلق نہیں ہے'۔
ہیرس نے کینٹوکی میں بریونا ٹیلر اور مینی سوٹا میں جارج فلائیڈ کے نسل کی بنیاد پر قتل کی مذمت کی اور اس کے بعد پولیس کے ذریعے نسلی ناانصافی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بارے میں بات کی۔
ہیریس نے کہا کہ 'ہم کبھی بھی تشدد کو بڑھاوا نہیں دیں گے لیکن ہمیں ہمیشہ ان اقدار کے لئے لڑنا ہوگا جن کو ہم عزیز رکھتے ہیں'۔
انھوں نے کہا کہ 'میں ایک سابقہ کیریئر پراسیکیوٹر ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ میں کس کے بارے میں بات کر رہی ہوں۔ اچھے پولیس اہلکاروں کے درمیان خراب پولیس بری چیز ہے'۔
ہیرس نے کہا کہ 'ان کا دل ہٹلر کا نام سن کر دہل جاتا ہے لیکن وہ امریکی عدالتی نظام پر بھروسہ کرتی ہیں۔'
انہوں نے اس کو قابل ذکر قرار دیا کہ ایک سابق اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر کی حیثیت سے ان کے دور میں نسلی قتل کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔
پینس نے اس خیال کو مسترد کر دیا کہ قانون نافذ کرنے والے افسران، اقلیتوں کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔
پینس نے کہا ہے کہ 'میں چاہتا ہوں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں انصاف کے لیے کام کیا جائے، صدر ٹرمپ اور میں قانون کی بالادستی کے ساتھ کھڑے ہیں'۔
انھوں نے کہا کہ 'ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت اور افریقی نژاد امریکی شہریوں کی حفاظت کے ضمن میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے'۔
دونوں امیدواروں کے دمیان ٹیکسوں پر بھی نوک جھونک رہی۔ اس سے قبل ٹرمپ نے صدارتی مباحثہ میں بھی اپنے ٹیکس کی ادائیگی سے متعلق کوئی واضح بات نہیں کی تھی۔
واضح رہے کہ نیو یارک ٹائمز نے گذشتہ ماہ رپورٹ کیا تھا کہ صدر بہت کم انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
ہیرس نے اس پر کہا ہے کہ 'یہ جاننا واقعی اچھا ہو گا کہ صدر کے ذریعے کتنا ٹیکس ادا کرنا باقی ہے'۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر ہر چیز کو چھپانے کے بارے میں ہیرس نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ 'وہ روزگار میں گراوٹ کے صحیح اعداد و شمار نہیں بتارہے ہیں جس پر پینس نے کہا کہ 'صدر ایک کامیاب تاجر ہے، انھیں 'ملازمت کے مواقع پیدا کرنے' کا اچھا تجربہ ہے۔'
اس مباحثے میں یو ایس اے ٹوڈے کی سوسن پیج نے وقفہ وقفہ سے دونوں امیدواروں سے سوالات کیے۔
ہیرس نے کہا کہ 'جو بائیڈن کا خیال ہے کہ معیشت کی صحت کو امریکی کارکنوں کی صحت سے ناپنا چاہئے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال تھا کہ معیشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جانا چاہئے کہ کتنے امیر لوگ ہیں۔ جو جدت، تعلیم، صاف توانائی اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کریں گے۔ وہ امریکہ کے لوگوں میں سرمایہ کاری پر یقین رکھتے ہیں۔'