جو بائڈن چاہتے ہیں کہ بھارتی حکومت جموں و کشمیر کی عوام کے حقوق ک وبحال کرے، اس کے علاوہ انہوں نے شہریت ترمیمی قانوں پر بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔
انتخابی مہم کے لیے ان کی ویب سائٹ پر ایک پالیسی پیپر اپڈیٹ کیا گیا ہے، جس میں لکھا گیا ہے 'یہ اقدامات سیکولرازم کی ملک کی طویل روایت اور متعدد نسلی اور کثیر مذہبی جمہوریت کو برقرار رکھنے کے ساتھ متضاد ہیں'۔
پالیسی پیپر میں مسلمان امریکیوں کو خطاب کیا گیا ہے، اس میں لکھا گیا ہے 'کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے لوگوں کے حقوق کو بحال کرنا چاہیے، کشمیر میں پر امن احتجاج پر پابندی، انٹرنیٹ اسپیڈ میں کمی، یہ ساری چیزیں جمہوریت کو کمزور کرتی ہیں'۔
پالیسی پیپر میں لکھا گیا ہے 'جو بائڈن ریاستحائے متحدہ امریکہ کے سینیٹر رہے ہیں، اس کے علاوہ سابق صدر براک ابامہ کے ساتھ 8 برسوں کے لیے نائب صدر رہے ہیں، امریکی بھارتیوں اور بھارت کے لیے وہ خاص دوست رہے ہیں'۔
پیپر میں مزید لکھا گیا ہے 'انہوں نے بھارت-امریکہ سویلین جوہری معاہدے کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا، اور نائب صدر کی حیثیت سے انہوں نے باہمی تجارت کو سالانہ 500 بلین امریکی ڈالر تک بڑھانے کی وکالت کی۔ بھارتی امریکیوں سے جڑے رہے اور بائیڈن باقاعدگی سے اپنی نائب صدر کی رہائش گاہ پر دیوالی کی میزبانی کرتے تھے'۔
وہیں دوسری جانب ہندو امریکیوں کے ایک گروپ نے بائیڈن کی انتخابی مہم میں بھارت کے خلاف استعمال ہونے والی زبان پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے خیالات پر نظر ثانی کریں۔ اس گروپ نے ہندو امریکیوں کے متعلق بھی اسی طرح کا پالیسی پیپر طلب کیا ہے۔