اردو

urdu

ETV Bharat / international

بھارتی نژاد صحافی، صحافت کے عظیم ایوارڈ 'پلٹزر ایوارڈ' سے سرفراز - etv bharat urdu

چین میں ایغور مسلمانوں کے لئے بنائے گئے حراستی کیمپوں کو بے نقاب کرنے کے لئے انہیں ان کے دو ساتھیوں کے ساتھ یہ ایوارڈ دیا گیا۔

Indian-origin journo
Indian-origin journo

By

Published : Jun 12, 2021, 2:58 PM IST

بھارتی نژاد صحافی میگھا راجگوپا لن نے امریکہ کا عظیم صحافتی ایوارڈ، 'پلٹزر انعام' حاصل کیا ہے۔ انہیں یہ ایوارڈ سیٹلائیٹ ٹکنالوجی کا استعمال کر کے جدید تحقیقاتی رپورٹس کے لئے دیا گیا ہے۔ بھارتی نزاد صحافی نے اپنی رپورٹ کے ذریعے ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے چین میں بڑے پیمانے پر نظربند کیمپوں کو بے نقاب کیا تھا۔

ایوارڈ کا اعلان پلیٹزر بورڈ نے جمعہ کے روز کیا۔ بین الاقوامی رپورٹنگ زمرے میں یہ ایواڈ ان کے ساتھ ان کے دو دیگر انٹرنیٹ میڈیا بز فیڈ نیوز کے ساتھی کو دیا گیا۔

بھارتی نژاد ایک اور صحافی، نیل بیدی نے بھی تحقیقاتی اسٹوری کے لئے مقامی رپورٹنگ والے زمرے میں پلٹزر ایوارڈ حاصل کیا۔ انہوں نے تمپا بے ٹائمس میں ایک اسٹوری کے ذریعے فلوریڈا میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے افسر کے ذریعے بچوں سے باخبر رہنے کے اختیارات کے ناجائز استعمال کو بے نقاب کیا تھا۔

کولمبیا یونیورسٹی کے نیو یارک میں گریجویٹ اسکول آف جرنلزم کے بورڈ کے ذریعے پلٹزر انعامات کا یہ 105 واں سال ہے جو صحافت میں کئے گئے شاندار کام کو تسلیم کرتا ہے۔

انٹرنیٹ کے زمانے میں سٹیزن جرنلزم کے اعتراف میں نوعمر صحافی ڈارنیلا فرازیر کو جارج فلائیڈ کے قتل کی ویڈیو بنانے کے لئے دیا گیا۔ واضح رہے کہ جارج فلائیڈ افریقی نزاد امریکی شخص تھا جو مینیپولیس میں پولیس نحویل میں ہلاک ہو گیا تھا۔

ان کے اسمارٹ فون پر بنائی گئی ویڈیو کلپ وائرل ہوگئی اور پولیس کی بربریت کے خلاف ملک گیر طویل احتجاج ہوا اور اس کی وجہ سے متعدد ریاستوں اور شہروں میں پولیسنگ میں اصلاحات لائے گئے۔

مہلوک فلائیڈ کی گردن پر ایک پولیس اہلکار نے گھٹنے رکھے تھے جب اس نے کہا تھا کہ "میں سانس نہیں لے سکتا"۔

بورڈ نے ان سے کہا کہ ''ان کی ویڈیو نے دنیا بھر میں پولیس کی بربریت کے خلاف مظاہروں کی حوصلہ افزائی کی، جس میں صحافیوں کی حقانیت اور انصاف کی جدوجہد میں شہریوں کے اہم کردار کو اجاگر کیا گیا ہے"۔

راجگوپا لن اور ان کے ساتھیوں نے حراستی کیمپوں سے تعلق رکھنے والے دو درجن سابق قیدیوں کے ساتھ سیٹیلائٹ ایمیجری اور تھری ڈی آرکیٹیکچرل نقلیات کا استعمال کر کے انٹرویو کیا، ان کیمپوں میں ایغور اور دیگر اقلیتی نسل سے تعلق رکھنے والے تقریباً ایک ملین مسلمان قید تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں مکمل صدمے میں ہوں، مجھے اس کی توقع نہیں تھی۔ اشاعت کے مطابق راجگوپالن اور ان کے ساتھیوں ایلیسن کلنگ اور کرسٹو بوسچک نے سنسر شدہ نقشہ سازی سوفٹویئر کے ساتھ سنسر شدہ چینی تصاویر کا موازنہ کرنے والی تقریبا پچاس ہزار ممکنہ سائٹوں کا ایک وسیع پیمانے پر ڈیٹا بیس بنانے کے بعد 260 حراستی کیمپوں کی نشاندہی کی تھی۔

بزفڈ نے بتایا کہ راجگوپلان، جنہوں نے پہلے چین سے خبر کی لیکن اس اسٹوری کی وجہ سے ان پر پابندی لگا دی گئی، انہوں نے سابق قیدیو کے انٹرویو کے لئے پڑوسی كازاخستان کا سفر کیا جہاں سابق قیدی فرار ہوکر پہنچے تھے۔

اس اشاعت میں کہا گیا ہے کہ "اپنی پوری خبر کے دوران راجگوپالن کو چینی حکومت کے ذریعے حراساں کیا گیا۔''

رپورٹ کی پوری سیرز کے دوران بیجنگ کے ذریعے ایغور کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ثبورت فراہم کیا گیا، جسے کچھ امریکی اور دیگر مغربی عہدیداروں نے "نسل کشی" قرار دیا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details