ممبئی: معروف اداکار اور مکالمہ نگارقادر خان نے فلمی دنیا کو نئے انداز کے مکالمے دیئے اور انہیں بحیثیت ایک اسلامی اسکالرکے بھی شہرت حاصل ہوئی تھی،ان کی تیسری برسی پر ان کی خدمات کو یاد کیا جارہا ہے،تین سال قبل عین نئے سال کے موقع پر انہوں نے کینڈا میں آخری سانس لی اور وہیں انہیں سپردخاک کیاگیاتھا۔ 81سالہ اداکار اپنی مزاحیہ اداکاری سے روتوں کو بھی ہنسا دینے کی قدرت رکھتے تھے۔Kader Khan was a renowned Islamic scholar
بتایاجاتا ہے کہ اجداد افغانستان سے آئے تھے۔اور پھر ممبئی میں مقیم ہوگئے ۔قادر خان اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کابل سے ممبئی پہنچے اور جنوبی ممبئی کے کماٹی پورہ اورپھرتاڑدیو علاقہ میں قیام کیا ۔ دلیپ کمار نے فلموں میں متعارف کرایا۔ 300 سے زائد فلموں میں کام کر چکے ہیں،انجمن اسلام صابو صدیق کالج میں لیکچرار تھے اور ڈراموں کے شوق نے فلمی دنیا تک پہنچا دیااور ریلوے پلیٹ فارم نامی گرامی کافی مشہور ہوا۔لیکن قادرخان کے بارے میں اکثریت اس بات سے لاعلم ہے کہ مرحوم 25سال سے اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے اور دین کی ترویج وتبلیغ میں سرگرم رہے ۔
انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیرقاضی نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں انجمن کے زیراہتمام صابوصدیق پالی ٹیکنک کا ایک ہونہار طالبعلم قراردیا۔انہوں نے کہا کہ قادرخان صابوصدیق میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں پر ٹیکنیکل تعلیم میں درس دینے لگے اور خالی وقت میں نوجوانوں کو ڈرامہ کراتے اور تھیٹر میں اداکاری کرتے اور مکالمے بھی لکھتے رہے،اور 1970کی دہائی میں فلموں میں موقعہ ملا اور مکالمے اور کہانیاں لکھنے لگے ،لیکن جب اداکاری کا پورا موقعہ ملنے کے بعد انہوںنے ملازمت کو خیرباد کردیا۔
جنوبی ممبئئی بدنام ریڈ لائٹ علاقہ کماٹی پورہ میں رہتے ہوئے انہوںنے سول انجنیئرنگ کی تعلیم صابوصدیق پالی ٹیکنک کی تعلیم حاصل کی اوروہیں الجبرا ،اپلائٹ میتھس وغیرہ کی تعلیم کے دوران مدرس بن گئے اور ڈرامہ کا شوق پروان چڑھا۔اور کالج میں یہ بات مشہور تھی کہ 'جس نے قادرخان کا پلے نہیں دیکھا وہ کالج میں کبھی گیا ہی نہیں 'دلیپ کمار نے ان کے ایک ڈرامہ کو کافی پسند کیا اور انہیں فلم سگینہ اور بیراگ میں اداکاری کی پیش کش کی مگر قادر خان کو اس سے قبل ہی فلم جوانی دیوانی میں مکالمہ لکھنے کا کام مل چکا تھا ،بیراگ میں انہیں پولیس انسپکٹر کے رول میں دیکھا جاسکتا ہے۔ان کا ڈرامہ 'لوکل ٹرین' نے جاگرتی ڈرامہ مقابلہ میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی تھی۔ قادر خان نے کئی فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ کہانی اور مکالمہ بھی لکھے ،جو کہ سونے پر سہاگہ ثابت ہوا اور فلمی دنیا ان کی مالا جپنے لگی تھی۔
قادر خان نے ایک گفتگو کے دوران بتایا کہ ان کے والدمولوی عبدالرحمن ایک عالم ہی نہیں بلکہ عربی زبان اور اسلامی لٹریچر میں پوسٹ گریجویٹ بھی تھے،جوکہ ہالینڈ ہجرت کرگئے ۔اور انہوںنے وہاں اپنا انسٹی ٹیوٹ کھولا تھا ،انتقال سے قبل انہوںنے قادرخان کو ہالینڈ طلب کیا اور انہیں نصحیت کی کہ وہ لوگوں میں عربی زبان ،اسلامی قوانین اور قرآن کی تعلیمات اور معلومات کے لیے بیداری پیدا کرنے کی جو مہم شروع کی ہے قادرخان بھی اس میدان میں کام کریں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ وہ اس سلسلہ میں لاعلم ہیں تب والدنے پوچھا کیا انہیں پہلے فلموں یا تھیٹر کے بارے معلومات تھی ،حلانکہ فلمی دنیا میں قادر خان نے کامیابی حاصل کرلی ہے،مولوی عبدالرحمن نے کہا کہ اگروہ غورکریں تو اسلامی تعلیمات کا موضوع کافی دلچسپ اور اہمیت کا حامل ہے، جس کے بعد قادر خان نے مرحوم والد سے وعدہ کیا اوراس جانب توجہ دیتے ہوئے عثمانیہ یونیورسٹی سے 1993میں ماسٹر ان آرٹس کے تحت اسلامک اسٹڈیز کی ڈگری حاصل کرلی ، انہوںنے عربی پر عبور حاصل کیا ،صلاحیت اور ذہانت کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے فلموں میں اپنا کام جاری رکھتے ہوئے انہوںنے ایک ایسی ٹیم تیار کی جو کے جی (ابتدائی تعلیم )سے پوسٹ گریجویٹ سطح کا اسلامی نصاب تیار کرسکے ۔