ممبئی: بھارتی فلم انڈسٹری کے سو سال انگنت لوگوں کے مرہون منت ہیں اور انہی فنکاروں میں ایک نام ہے اے کے ہنگل کا ۔ اے کے ہنگل یعنی اوتار کشن ہنگل ایسے فنکار تھے جنہوں نے مفلسی، تنگدستی اور انتہائی تکلیف دے بیماریوں میں زندگی بسر کی مگرکبھی اپنی تکلیفوں کا کسی سے اظہار نہیں کیا۔ یہ بھرم بھی صرف موت سے ایک سال پہلے اتفاقیہ طور پر کھلا ۔یوں کہئے کہ موت نے بھی زندگی بھر خودداری کی چادر میں اپنا آپا چھپائے رکھنے والے فنکار کی لاج رکھی اوراس سے پہلے کہ خودداری کی قبا کھلتی انہیں موت نے اپنی آغوش میں لے لیا۔
جس عمر میں لوگ خود کو بوڑھا کہہ کر ہر کام سے بری الذمہ ہوجانا چاہتے ہیں، اس عمر میں اے کے ہنگل نے پہلی مرتبہ کیمرے کا سامنا کیا تھا۔ یہ حوصلے، ہمت اور جوانمردی کی ہی تو بات ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ 96 سال کی عمر میں وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود فیشن شو میں شرکت اور 97 سال کی عمر میں ایک اینی میٹیڈ فلم اور ٹی وی شو کے لئے وائس اوور کرانا اس بات کا واضح پیغام ہے کہ بڑھاپا‘ اے کے ہنگل کے لئے کبھی رکاوٹ نہیں بنا۔ وہ شاہد ہر عمر میں کام۔۔ اوروہ بھی دوسرے سے بہتر کام ۔۔کرنے کے لئے ہی پیدا ہوئے تھے۔ اے کے ہنگل آخری سانس تک کام کرتے رہے ۔ شاید اس لئے بھی کہ وہ بہت خوددار تھے ۔ آخری دنوں میں انہیں پیسے کی سخت تنگی تھی۔ عرصے سے بیمار اور ضعیفی بھی تھی لیکن انہوں نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔
انہوں نے 200سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ چار عشروں تک آن کیمرہ رہے ۔ کبھی اپنی غربت اور تنگدستی کا رونا کسی کے آگے نہیں رویا۔ سن 2011ء میں پہلی مرتبہ اتفاقیہ اندز میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ تنگدستی کا شکار ہیں۔ ان کا ذریعہ معاش کچھ نہیں تھا ، اولاد کے نام پر صرف ایک بیٹا وجے ہے اور اس کی عمر میں 70سال سے زائد ہے ۔ کمر میں شدید درد کی شکایت کے سبب ان کی نوکری جاتی رہی۔ غربت کے سبب وہ اپنا اور اپنے بیٹے کا علاج کرانے میں بھی مشکلات کا شکاررہے۔
ہنگل نے سیالکوٹ ،صوبہ پنجاب، پاکستان میں آنکھ کھولی اور بچن کے دن پشاور میں گزارے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے درزی تھے لیکن اداکاری کا شوق لیے تھیٹر تک چلے آئے۔ پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کے دو سال بعد یعنی 1949ء میں وہ ممبئی جابسے۔ یہاں آکر بھی اداکاری کا جذبہ ماند نہیں پڑنے دیا اور انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس دور میں بلراج سا ہنی، اتپل دت ، کیفی اعظمی اور دیگر بہت ساری نامور شخصیات بھی اسی ایسوسی ایشن سے وابستہ تھیں۔ ہنگل نے 1966-67 میں ہندی فلموں میں قدم رکھا۔ ان کی ابتدائی فلموں میں ” تیسری قسم“ اور ”شاگرد“ شامل تھیں۔ اس وقت ان کی عمر 50 برس تھی۔ ظاہر ہے کہ اس عمر میں ان کے پاس لگے بندھے کرداروں کے سوا کچھ نہیں تھا لیکن انہوں نے ہیرو، ہیروئنز کے ”انکل، باپ “ اور ”دادا“ کے کرداروں کو بڑی ذمے داری کے ساتھ نبھایا۔ ستر کی دہائی میں بننے والی اکثر فلموں میں باپ دادا اور انکل کے کردار انہیں کو ملاکرتے تھے۔
فلم ” شعلے“ ان کی بطور کریکٹر ایکٹر یادگار فلم ہے ۔ اس میں انہوں نے رحیم چاچا کاکردار ادا کیا تھا جبکہ ان کی دیگر مشہور فلموں میں ”نمک حرام، باورچی، چھپارستم، ابھی مان، آئینہ ، اوتار، ارجن، آندھی، کورا کاغذ، چت چور، انامیکا ، پریچے اور” گڈی“ شامل ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر فلم ”شوقین “ میں کی گئی ان کی اداکاری کو کبھی نہیں بھلایا سکتا۔ اے کے ہنگل نے زیادہ تر ہندوستان کے پہلے سپر اسٹار راجیش کھنہ کے ساتھ فلمیں کیں ۔ اتفاق ہے کہ زندگی بھر ساتھ کام کرنے والے راجیش کھنہ نے 18جولائی کو ان کا ساتھ چھوڑا تو اے کے ہنگل بھی اگلے ہی مہینے یہ دنیا چھوڑ کر وہیں جابسے جہاں راجیش کھنہ گئے تھے۔ دونوں فنکاروں نے ”آپ کی قسم ، امردیپ، پھر وہی رات، قدرت، نوکری، تھوڑی سی بے وفائی“ اور” سوتیلا بھائی“ جیسی متعدد فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔