ریاست اترپردیش کے ضلع وارانسی کے کاشی میں واقع گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ و مسجد تنازعہ حل کرانے کے لیے ایک ہندو تنظیم نے عدالت کا درواز کھٹکھٹایا ہے، جس کے جواب میں جمعیۃ علماء ہندنے بھی عرضی داخل کی ہے۔
'گیان واپی مسجد' کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش ہندو پجاریوں کی تنظیم 'وشو بھدر' کے ذمہ دار پجاری مہا سنگھ نے گیان واپی مسجد کے تعلق سے عبادت کے مقام کے قانون'پلیس آف ورشپ' ایکٹ کی آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
آپ کو بتا دیں کہ' یہ قانون 18 ستمبر سنہ 1991کو بنایا کیا گیا تھا جس کے مطابق سنہ 1947 میں ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے۔ اس قانون میں بابری مسجد کے تنازعہ کو مستثنی رکھا گیاتھا، کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں چل رہا تھا۔
پجاری تنظیموں کی جانب سے داخل کردہ عرضی میں جمعیۃ علمائے ہند نے مداخلت کار بننے کی عرضی داخل کردی ہے۔جمعیۃ علماء ہند نے تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہاکہ 'سادھوؤ ں کی تنظیم کی جانب سے تاریخی عبادتگاہوں کے تحفظ کے قانون کو چیلنج کرتے ہوئے گیان واپی مسجد، کاشی متھراعیدگاہ اور مسجد تنازعہ دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،جس کا مقصدملک میں ایک اوربابری مسجدجیسی صورتحال پیداکرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں'۔
سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل عرضی(ڈائری نمبر 12395/2020)میں عدالت سے گزارش کی گئی ہے کہ عدالت ہندو سادھوؤں کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لیے قبول ہی نہ کرے اور اسے خارج کردے کیونکہ اگر عدالت اسے سماعت کے لیے قبول کرلیتی ہے تو بھارت کے انصاف وامن پسند عوام بالخصوص مسلمانوں میں خوف پیدا ہوجائے گا کیونکہ بابری مسجد فیصلہ آنے کے بعد سے ہی مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے تعلق سے فکر مند ہیں نیز ملک کی قومی یکجہتی کو اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جمعیۃ نے اپنی عرضی میں مزید کہاکہ' بابری مسجد-رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہندفریق تھی جس میں 'پلیس آف ورشپ' قانون کی دفعہ 4کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانونی کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے لہذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک با ر پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پٹیشن میں مزید درج کیاگیاہےکہ 'پلیس آف ورشپ' قانون سنہ 1991 میں نافذکرنے کا دو مقصد تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھا اور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔
عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ 'پلیس آف ورشپ قانون' آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے نیز اس قانون کی حفاظت کرنا جمہوری ملک کی ذمہ داری ہے اور جمہوری ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔
بابری مسجدایکشن کمیٹی کے کنوینر اور سینئر ملی رہنما ڈاکٹرقاسم رسول الیاس نے کہاکہ' تاریخی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کوچیلنج کیاجانا سمجھ سے بالاترہے اور اس سے ملک کاماحول خراب ہوگا۔
واضح رہے کہ وارانسی کے کاشی میں واقع ایک قدیم مسجد 'گیان واپی مسجد' ہے، جسے ہندو پجاری مندر کاحصہ بتاتے ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ' گیان واپی مسجد کاشی وشوناتھن مندر میں واقع ہے۔جس کامطلب وہ مندرکاحصہ ہے۔اس لئے محکمہ آثار قدیمہ یہاں کھدائی کرے۔اس تعلق سے ٹرائل کورٹ اورہائی کورٹ میں مقدمات چل رہے ہیں۔عدالت عظمی میں جو نیامعاملہ آیا ہے، وہ براہ راست گیان واپی سے نہیں جڑاہے، بلکہ یہ عرضی عبادت گاہوں کے تحفظ کے اس قانون کوچیلنج کرنے کے لئے ہے، جو تاریخی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرتاہے۔