بنارس ہندو یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کی جانب سے گزشتہ برس سے ایک تحقیقی رسالہ 'دستک' شائع ہونا شروع ہوا ہے۔
ششماہی رسالہ دستک کے تیسرے شمارے پر آج شعبہ اردو کی جانب سے ایک مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا۔ اس مذاکرہ میں نہ صرف اساتذہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا بلکہ طلباء و طالبات نے بھی رسالے پر تبصرے پیش کیے۔
اس موقع پر شعبہ صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ 'تحقیق محض حقائق کی تلاش کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تہذیب کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ جب تک تحقیق کا تعلق سماجیات، جغرافیہ، تاریخ اور ریاضی سے نہیں ہوگا، اس وقت تک تحقیق کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا'۔
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ 'بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے شائع ہونے والا ششماہی ریسرچ جنرل 'دستک' نہ صرف طلباء و طالبات کے لیے کارآمد ہے بلکہ اساتذہ، ریسرچ اسکالر اور دیگر اردو داں طبقے کے لیے بھی ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔
نثر کے حوالے سے پروفیسر آفاقی نے شارب ردولوی کو کوڈ کرتے ہوئے کہا کہ ایک اچھا جملہ لکھنا خون تھوکنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ 'موجودہ دور میں اردو داں حضرات خاص کر یونیورسٹیز میں طلباء و اساتذہ کا رجحان ریسرچ سے دور ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں 90 فیصد افراد ریسرچ سے دور ہوگئے ہیں۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کا شعبہ اردو ان تمام گوشے کو نظر میں رکھتے ہوئے ریسرچ پر زیادہ مضامین شامل کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل قریب میں ششماہی ریسرچ جنرل دستک اپنی منفرد شناخت قائم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ رسالہ کو کامیاب سے کامیاب تر کرنے کے لیے اس نوعیت کا مذاکرہ منعقد کیا گیا ہے جس میں دانشور حضرات اپنی قیمتی رائے دے رہے ہیں اور ان سبھی آراء پر غور و فکر کیا جائے گا ساتھ ہی رسالے کے میعار میں مزید بہتری آئے گی۔
مہمان اعزازی کے طور پر تشریف لائے شعبہ فارسی کے سربراہ پروفیسر عقیل احمد نے کہا کہ 'رسالے کو جاری کرنا اور اس کا سلسلہ جاری رکھنا اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔ دستک چونکہ معیاری رسالہ ہے اس لیے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا'۔
شعبہ عربی سے تشریف لائے مہمان خصوصی شعبہ صدر پروفیسر اشفاق احمد نے کہا کہ 'ایک علمی و ادبی مجلّہ کی تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں'۔ انہوں نے اداریہ پر خاص طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اسے بہت ہی کارآمد بتایا۔
ڈاکٹر محمد اختر استاذ بسنت کالج (بی ایچ یو) نے رسالے کے حوالے سے کہا کہ 'گزشتہ دس پندرہ برسوں میں اردو میں جو چند قابل قدر رسالے شائع ہوئے ہیں ان میں دستک کا بھی شمار ہوتا ہے'۔ انہوں نے اس کے مشمولات پر خصوصی گفتگو کی اور کچھ ضروری ترمیم کی طرف بھی اشارہ کیا۔
ڈاکٹر مغیث احمد نے 'دستک' کے اداریے، اردو زبان کی زبوں حالی اور رسم الخط کے مسئلے پرگفتگو کی۔