شخصی راج کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے عام لوگوں پر گولیاں چلاکر 22 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ یہ لوگ پائین شہر کے رعناواری علاقے میں قائم سینٹرل جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوگئے تھے جہاں ایک افغان قیدی عبدالقدیر کے مقدمے کی شنوائی ہونے والی تھی۔
مؤرخین کے مطابق عبدالقدیر نےچند روز قبل سرینگر کی جامع مسجد میں اچانک نمودار ہوکر ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی تھی جس کے بعد شہر میں جگہ جگہ مطاہرے ہوئے تھے۔
حکام نےعبدالقدیر کو فوری طور گرفتار کیا تھا۔ وہ ایک انگریز سیاح کے ساتھ وارد کشمیر ہوئے تھے اور بعض مورخین کے مطابق ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم تھے جہاں انہوں نے کشمیری عوام کی بے بسی کی داستان سنی تھی۔
سینٹرل جیل کے باہر قتل عام کے بعد کشمیر میں شخصی راج کے خلاف تحریک میں سرعت آگئی اور جمہوری نظام اور خودمختار حکومت کے لیے تحریک نے زور پکڑ لیا۔
اس دن کو ریاست میں علیحدگی پسندوں سے لیکر مین اسٹریم سیاسی جماعتیں ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔
تیرہ جولائی کو جموں و کشمیر میں شہدا کو خراج پیش کرنے کے تئیں سرکاری تعطیل بھی ہے اور اس روز سیاسی رہنما مزار شہدا پر حاضر ہوکر شہداء کو خراج عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔
سرکاری تقریب میں پولیس کا ایک دستہ شیدا کو گارڈ آف آنر پیش کرتا ہے۔
قوم پرست جماعت بی جے پی تاہم اس دن کو یوم شہدا تصور نہیں کرتی۔ بی جے پی کے رہنما جب اقتدار میں تھے تو انہوں نے سرکاری تقریب میں شمولیت اختیار نہیں کی جو انکی حلیف جماعت پی ڈی پی کیلئے باعث خفت بنا۔