سرینگر: آج ہی کے روز سنہ 2019 میں وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمان میں دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بِل کو پارلیمان میں پیش کیا تھا جسے ممبران کی اکثریت نے منظوری دی تھی۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی جموں و کشمیر ریاست کو دو یونین ٹریٹریز، جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ 3rd anniversary of Article 370 scrapping
دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کے آئین کو بھی منسوخ کیا گیا اور جموں و کشمیر تنظیم نو قانون کا اطلاق کیا گیا جس کے تحت وزارت داخلہ کی زیرنگرانی جموں و کشمیر میں حکومت قائم کی گئی۔ پانچ اگست سے ایک روز قبل وادی کے تمام سرکردہ سیاسی جماعتوں کے لیڑران کو جیل بھیج دیا گیا یا نظر بند کیا گیا جبکہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں کئی ماہ تک کرفیو نافذ رہا اور وادی میں سیکورٹی فورسز کی بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا۔ اس دوران انٹرنیٹ سمیت فون سروس کو بھی کئی ماہ تک معطل کر دیا گیا تھا۔
آج تیسری برسی کے موقع پر جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ ہے اور ایل جی انتظامیہ کی حکمرانی ہے۔ تیسری برسی کے موقع پر پیپلز کانفرنس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’دفعہ 370 کی منسوخی کو جموں و کشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ دن تصور کیا جائے گا اور اسے کشمیری عوام کو بے اختیار کرنے کے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا‘۔ تاہم دیگر سیاسی جماعتوں بشمول نیسنل کانفرنس، پی ڈی پی، کانگرس اور اپنی پارٹی کی جانب سے ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Abrogation of Article 370 from J&K: پانچ اگست دو ہزار انیس کے بعد کتنا بدلا کشمیر؟
پانچ اگست 2019 کے بعد مرکزی حکومت نے علیحدگی پسند تنظیموں پر یا تو پابندی عائد کر دی یا ان کے لیڑران و کارکنان کو جیلوں میں بند کردیا۔ مرکزی سرکار و مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں سیکورٹی کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ پتھراؤ کے واقعات میں کمی آئی ہے اور علیحدگی پسندی پر شکنجہ کسنے سے عسکریت پسندوں کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔