انہوں نے کہا کہ 'کیا وجہ ہے کہ سوچ بدل گئی ہے، اس کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن کم از کم کچھ قدم جو اٹھائے جا رہے ہیں، اُس سے ہمیں لگتا ہے کہ جموں و کشمیر کو اب شائد صحیح اندازے سے دیکھنے شروع کیا گیا ہے'۔
عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار بدھ کے روز یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر نوائے صبح کمپلیکس میں تنظیم کی مختلف اکائیوں کے اجلاسوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقعے پر پارٹی جنرل سکریٹری علی محمد ساگربھی موجود تھے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ پانچ اگست کے بعد عوام چلا رہے تھے کہ ہمارے بچوں کی تعلیم، کاروبار اور دیگر ضروریات کے لیے فور جی انٹرنیٹ بحال کیا جائے لیکن یہ لو گ ٹس سے مس نہیں ہوئے اور پھر اچانک فور جی چالو ہوگیا اور اس کے بعد فائر بندی کا اعلان بھی ہوا۔
انہوں نے کہا کہ 'کسی کو معلوم بھی نہیں تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت چل رہی ہے، سب یہی سوچ رہے تھے کہ دشمنی پرانی ہے اور آگے بھی برقرار رہے گی لیکن اچانک جنگ بندی پر سختی سے عملدرآمد کرنے کا اعلان ہوا اور ہم نے اس کا خیر مقدم کیا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس کے بغیر ماحول کو ٹھیک رکھنا ناممکن ہے'۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ سیز فائر کے اعلان کو ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا کہ آج یہ خبر کو دیکھنے کو ملی کی میرواعظ مولوی عمر فاروق صاحب کی نقل و حرکت پر 18 ماہ سے عائد پابندی ختم کی گئی ہے اور انہیں نماز جمعہ کے موقعے پر جامع مسجد میں خطبے کی اجازت دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان اقدامات کے وقفے میں زیادہ وقت ہوتا تو شاید یہ معمول کا عمل ہوتا لیکن پے درپے ایسے اقدامات سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جموں وکشمیر سے متعلق کہیں نہ کہیں سوچ میں تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہے۔