واضح رہے یہ دورہ گزشتہ ہفتے جیل میں ہوئے تصادم کے پس منظر میں تھا۔
بار ایسوسیشن کے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق جمعے کے روا بار ایسوسی ایشن کی ایک ٹیم نے جیل کا دورہ کیا اور قیدیوں سے ملاقات بھی کی۔
بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری محمد اشرف بٹ کے مطابق ' ایک اپریل کو ہوئے واقعے کے بعد قیدی خوفزدہ ہیں اور اگر ان کی جائز مانگی پوری نہیں کی گئی تو وہ خود کشی جیسے اقدام بھی کر سکتے ہیں'۔
بٹ نے بتایاکہ' قیدوں کے مطابق یکم اپریل کو ان کے نمائندوں کو جیل سپرنٹنڈنٹ نے بیرق ' اے ون اور بی ون' کی مرمت کے لیے خالی کرنے کو کہاتھا۔ قیدیوں کے نمائندوں کی رائے تھی کہ پہلے ایک بیرق کی مرمت ہوجائے بت دوسری بیرق کو خالی کرکے اس کی بھی مرمت کی جانی چاہیے، تب تک دونوں بیرقوں کے قیدیوں کو ایک ہی بیرق میں ٹھہرایا جائے، لیکن ان کی بات پر سپرنٹنڈ نٹ نے کوئی بیان نہیں دیا'۔
انکے مطابق 'قیدنوں نے جب دوسری بیرق سے چیخنے چلانی کی آوازیں سنیں تو پتہ چلا بیرقس جہاں مذہبی کتابیں قرآن شریف اور باقی کتابیں رکھا کرتے تھے وہاں اس جگہ کو بے حرمتی کے ساتھ توڑی فوڑ کیا جارہا تھا ہیں تو انہوں نے انتظامیہ سے گزارش کی کہ وہ انہیں اپنا سامان لے جانے کی اجازت دیں۔ قیدیوں کی یہ گزارش بھی نامنظور کی گئی جس کے بعد جیل میں احتجاج شروع ہوگیا'۔
احتجاج پر قابو پانی کے لیے نزدیکی پولیس اسٹیشن سے سی آر پی ایف کا ایک دستہ بلایا گیا'۔
'حفاظتی عملے کی کارروائی میں ایک ستر سال کے قیدی عابد کا چراغ کو آنکھ میں بیلٹ لگے جس کا آپریشن 11 اپریل کو ہوا اور دوسرے قیدی مختار احمد شدید طور پر زخمی ہوگئے۔ جبکہ مختار احمد کو ڈاکٹر نے شولڈر شافٹ ریپلیسمنٹ سرجری کرنے کی ہدایت دی ہے'۔
قیدیوں کا مزید کہنا تھا کہ' ان کو بیرق خالی یا مرمت کرنے سے کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن قرآن کے ساتھ بے حرمتی انہیں برداشت نہیں تھی۔ ہم نے ان سب باتوں کا ذکر ڈپٹی کمشنر سرینگر اور جیل میں دورے پر آئے باقی افسران سے بھی کیا اور ان سب نے ہمیں اس واقعہ کی پوری جانچ کرنے کا یقین دہانی کرایا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیرق میں آگ حفاظتی عملے کی فائرنگ سے ہوئی تھی اور اس بیرق میں ٹیلرنگ کا سامان تھا۔
ہائی کورٹ بار ایسوسیشن کے سامنے اپنی مانگے رکھتے ہوئے قیدیوں نے کہا کہ "وہ چاہتے ہیں کی اس واقعہ کی تفتیش ہائی کورٹ میں اور عدالت عالیہ کے جج کی نگرانی میں ہو'۔ اس کے علاوہ جیل انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے اور ریڈ کراس، ہیومن رائٹس کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور باقی تنظیموں کوجیل کا دورہ کرایا جائے۔ اور اگر ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے تو وہ خودکشی کر لیں گے'۔
واضح رہے کی بیرق کی وہ جگہ جہاں قرآن کی بحرمتی ہوئی تھی وہ ابھی بھی ویسے ہی ہے۔ قیدیوں کا کہنا ہے کی وہ اس جگہ کو ویسے ہی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ تحقیقات میں کوئی مشکلات نہ آئے۔
وہی بار ایسوسی ایشن کے مطابق جیل سپریڈنٹ کا کہنا ہے کہ بیرکوں میں رنگ و روغن اور کچھ مرمت درکار تھی اسی لیے اس جگہ کو خالی کروائی گئی تھی'۔
اس ضمن میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اپنی رپورٹ سنچر کے روز چیف جسٹیس مجسٹریٹ کے دفتر میں مزید کارروائی کے لیے جمع کرے گی'۔