جموں کی خصوصی عدالت میں 4 فصائیہ کے ملازمین کو گولی مارنے اور اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی دختر روبیہ سعید کے اغوا کے سلسلہ میں 30 سال قدیم مقدمات میں گواہوں پر جرح کا آغاز ہوا۔
جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے یاسین ملک تہاڑ جیل سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ عدالتی کاروائی میں شامل ہوئے۔ ان دونوں کیسز میں یاسین ملک پر الزامات وضع کئے گئے ہیں جبکہ وہ فی الحال تہاڑ جیل میں قید ہیں۔
محمد یاسین ملک نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہے جبکہ وہ خود گواہوں سے جرح کریں گے۔ اس موقع پر دونوں کیسوں میں استغاثہ کے صرف ایک گواہ عبدالرحمن صوفی اور فضائیہ کے ملازمین کی ہلاکت کا صرف ایک ملزم سلیم عرف ناناجی موجود تھے۔ دیگر ملزمین اس موقع پر موجود نہیں تھے۔ سماعت کے دوران وکیل نے بتایا کہ کشمیر میں موجودہ حالات کے پیش نظر دیگر ملزمین عدالت میں پیش نہیں ہوسکے، جس کے بعد عدالت نے جرح کے عمل کو موخر کردیا۔ اس مقدمہ میں ایس کے بھٹ سابق قانونی مشیر کے علاوہ مونیکا کوہلی بھی اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر تھیں۔