گرچہ وادی میں گداگری کی روک تھام کے لیے قوانین بھی موجود ہیں ،لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل نہیں ہوتا اور ان افراد نے اب گداگری کو کمائی کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔
گداگری میں دن بہ دن اضافے کی وجہ سے عوام کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔
کشمیر: گداگری کا پیشہ عروج پر معاشرے میں یہ افراد اس قدر گھل مل مل گئے ہیں کہ لباس اور زبان ہی نہیں بلکہ مذہب کو بھی تبدیل کر کے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔
رواں برس اپریل میں سرینگر کے ضلع ترقیاتی کمشنر ڈاکٹر شاہد اقبال چودھری نے جے کے پی بی ایکٹ 1960 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ضلع میں عوامی مقامات پر گداگروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے اورانہیں گرفتار کرنے کی ہدایت دی بھی تھی، تاہم زمینی سطح پر یہ احکامات کاعذات تک ہی محدود رہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سرینگر کے مجسٹریٹ ڈاکٹر شاہد اقبال چودھری کا کہنا تھا کی عارضی بنیادوں پر بھیک مانگنے والے افراد کی باز آبادکاری کے لیے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ پانچ اور ایسے مراکز شہر میں قائم کیے جائیں گے۔
ان کا ماننا ہے کہ گداگری کی روک تھام کرتے وقت ہمیں بھیک مانگنے والے افراد کے حقوق انسانی کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گداگری کے لیے لباس اور مذہب کا غلط استعمال کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔