دریائے گنگا کے کنارے آباد قنوج شہر کبھی بادشاہ ہرشوردھن کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ قنوج اپنی شاندار تاریخ کے لئے پورے ملک میں اپنی شناخت رکھتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی قنوج اپنے عطر کی خوشبو کے لئے بھی پوری دنیا میں مشہور ہے۔
قنوج میں روایتی طریقے سے تیار عطر کا کاروبار عطر کی خوشبو کے لئے مشہور اس شہر کو عطر کا دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے۔ قنوج میں عطر بنانے کا کام سترہویں صدی سے جاری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فارس میں اس طریقے سے عطر تیار کیا جاتا تھا اور وہاں کے کاریگروں نے اسے یہاں تک پہنچایا۔
عطر کے متعلق مشہور ہے کہ سترہویں صدی میں مغل بادشاہ جہانگیر کی بیگم نور جہاں جس تالاب میں غسل کرتی تھیں اس میں گلاب کی پنکھڑیوں کو توڑ کر ڈالا جاتا تھا۔
نور جہاں نے ایک بار دیکھا کہ گلاب کی پنکھڑیاں پانی میں تیل چھوڑ رہی ہیں۔ جس کے بعد گلاب کے پھولوں سے خوشبودار تیل نکالا جانے لگا۔
اس کے بعد جہانگیر نے خوشبو کے لئے تحقیق کا حکم دیا۔
آج بھی عطر کی فیکٹریوں میں آلودگی کے طریقہ کار کے ذریعے تانبے کے بڑے بڑے دیغوں میں عطر تیار کیا جاتا ہے۔
کھیتوں سے لائے گئے پھولوں کو بھٹیوں پر لگے بڑے بڑے تانبے کے دیغوں میں ڈالا جاتا ہے۔ پھول ڈالنے کے بعد دیغ پر ڈھکن رکھ کر اسے مٹی سے سیل کر دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد بھٹیوں میں آگ لگائی جاتی ہے۔ کچھ گنھٹوں بعد دیغ سے نکلنے والی بھاپ کو دوسرے برتن میں جمع کیا جاتا ہے، جو بعد میں خوشبودار عطر میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
قنوج میں مٹی سے بھی خوشبو نکالی جاتی ہے۔ یہاں کے کمہار ایک خاص قسم کی مٹی جس کو چیکا مٹی کہتے ہیں، اُسے گیلا کر کے پکاتے ہیں۔ اس کے بعد کمہار ان کاروباریوں کو پکی ہوئی مٹی فروخت کردیتے ہیں۔
عطر کے کارخانوں میں پہنچنے کے بعد تانبے کے برتنوں میں مٹی کو پکایا جاتا ہے۔ اس کے بعد مٹی سے نکلنے والی سوندھی خوشبو کو بیس آئیل میں ملاکر عطر تیار کیا جاتا ہے، اس کا استعمال گٹکے اور تمباکو میں کیا جاتا ہے۔
قنوج میں جہاں ایک جانب سستا عطر دستیاب ہے وہیں دوسری جانب یہاں دنیا کا سب سے مہنگا عطر بھی تیار کیا جاتا ہے۔
یہ عطر آسام کی خاص لکڑی آسماکیٹ سے بنایا گیا ہے۔ اس عطر کے ایک گرام کی قیمت 5 ہزار روپے تک ہے۔ کچھ عطر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بازار میں عود کی قیمت فی کلو 50 لاکھ روپے تک ہے۔ قنوج میں خوشبودار تیل کی قیمت 25 روپے سے لے کر لاکھوں روپے تک ہے۔