اتر پردیش کی دارالحکومت لکھنؤ میں واقع خواجہ معین الدین چشتی لسانی یونیورسٹی مسلسل سرخیوں میں ہے۔ در اصل پہلے یونیورسٹی کے نام سے اردو، عربی فارسی ہٹا دیا گیا اور اب یونیورسٹی میں لگے سائن بورڈز سے اردو زبان کو پوری طرح نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ جس پر یونیورسٹی انتظامیہ اور یوگی حکومت پر اردو زبان کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماج وادی پارٹی سے رکن پارلیمان ایس ٹی حسن نے کہا کہ' خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی کا قیام ان زبانوں کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اب سازش کے تحت ان زبانوں کو ختم کیا جارہا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ سرکار اردو، عربی اور فارسی زبان کو ختم کرنے پر پوری طرح آمادہ ہے۔ موجودہ حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ اس سے اس کا ووٹ بینک مضبوط ہوگا۔ ایس ٹی حسن نے کہا کہ "اگر حکومت بدلتی ہے تو یونیورسٹی کا نام بھی بدل جائے گا'۔"
بہوجن سماج وادی پارٹی سے رکن پارلیمان دانش علی نے کہا کہ' اردو کسی مذہب کی زبان نہیں ہے یہ عوام کی زبان ہے۔ انہوں نے بی جے پی لیڈران پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ لوگ خطاب کرتے ہیں تو اردو کی شعر و شاعری خوب کرتے ہیں لیکن جب اردو پر کام کرنے کا وقت آتا ہے، تو وہ اسے ختم کرنے پر لگ جاتے ہیں۔ دانش علی نے کہا کہ اردو ہمارے ملک کی ساجھی وراثت ہے، اسے فروغ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ ختم کرنے کی۔ ہم اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بھی اٹھائیں گے'۔
یو پی کانگریس کمیٹی (اقلیتی) کے چئیرمین شاہنواز عالم نے کہا کہ' اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ یہ سرکار اردو زبان کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی ہمیشہ سے اردو کی مخالفت کرتی آرہی ہے کیونکہ اردو زبان کو عام طور پر مسلمان استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے بی جے پی حکومت اردو کی مخالفت کرتی ہے'۔