اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ Famous Azamgarh in Uttar Pradesh کا شمار مردم خیز علاقوں میں کیا جاتا ہے اس ضلع سے وابستہ لوگوں نے ہر شعبے میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنی نمایاں کارکردگی پیش کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اعظم گڑھ کو متعارف کرایا ہے۔ اعظم گڑھ کا نام سنتے ہی کیفی اعظمی، Kaifi Azmai، شبانہ اعظمی Shabana Azmi، علامہ شبلی نعمانی Allama Shibli Numani، قاضی اطہر مبارکپوری، اقبال سہیل Iqbal Sohail، مفتی عبداللہ پھولپوری Mufti Abdullah Phulpuri جیسی متعدد شخصیات کا اسم گرامی ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے۔
ان ہی میں ایک شخصیت ڈاکٹر الیاس احمد اعظمی Dr. Ilyas Azmi کی ہے۔ جنہوں نے اپنا موضوع سخن و قلم علامہ شبلی نعمانی کو منتخب کیا ہے۔ جنہیں ماہر شبلیات کہا جاتا ہے۔ جن کی علامہ شبلی نعمانی پر 22 کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں اور ڈاکٹر الیاس اعظمی کو اتر پردیش اردو اکیڈمی، بنگال اردو اکیڈمی، بہار اردو اکیڈمی سمیت متعدد تنظیموں نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اعزاز و انعام سے نوازا ہے۔ ای ٹی وی بھارت اردو نے ڈاکٹر الیاس احمد اعظمی سے علامہ شبلی نعمانی اور موجودہ وقت میں اردو زبان و ادب Urdu language and literature کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر الیاس احمد اعظمی Talk with dr. Ilyas Azmi نے بتایا کہ بھارت میں جو عظیم شخصیات پیدا ہوئیں اور جنہوں نے پورے معاشرے کو متاثر کیا اس میں ایک نام علامہ شبلی نعمانی کا بھی ہے۔ دوران طالب علمی جب شخصیات کو پڑھتا تھا ان کے سوانح عمری کا مطالعہ کرتا تھا تو ہم وطن ہونے کی وجہ سے علامہ شبلی نعمانی Allama Shibli Nomani کے طرف ذہن زیادہ جاتا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب مطالعہ کرتا تھا تو ایک بات سامنے آئی کہ مولانا الطاف حسین حالی ادیب و شاعر اور سوانح نگار ہیں لیکن علامہ شبلی اتنی جامعیت یا اسی طرح سے عالمگیر شہرت رکھنے والے علامہ اقبال جو خود علامہ شبلی سے متاثر تھے اور جنہیں علامہ شبلی نے متعدد مقامات پر متعارف کرایا تھا۔ اقبال کی ذہنی و فکری تربیت میں علامہ شبلی کا بھی بہت بڑا حصہ تھا تو ان کی شاعری اور ان کا کلامی ادب جب میں نے اس کا جائزہ لیا تھا تو مجھے نظر آیا کہ علامہ شبلی تو یہاں بھی بدرجہا نظر آرہے ہیں۔ تو مختلف علوم و فنون اسلامی علوم یا کسی قدر جدید تعلیم کے میدان میں جہاں جہاں میں نے دیکھا علامہ شبلی کو فائق تر پایا اس لیے میں نے مولانا شبلی کا انتخاب کیا اور یہ مجھے بارہا احساس ہوا کہ غالب پر اس قدر کام جبکہ اگر غالب کی حیثیت دیکھی جائے تو شاعری میں ان کی چار پانچ خصوصیات ہیں جو ایسی ہیں کہ جس کا سارا زمانہ معترف ہے۔ عالمی اردو ادب میں ان کا شمار ہوتا ہے لیکن وہ خصوصیات مولانا شبلی کی فارسی شاعری میں بھی پائی جاتی ہے اور مولانا آزاد نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ بھارت میں فارسی شاعری کا خاتمہ غالب پر نہیں شبلی پر ہوا ہے۔ تو اتنا تنوع و جامعیت اور اس سے بھی بڑھ کر ملت کے لیے ان کا اخلاص و فکر مندی ان سب چیزوں نے مجھے متاثر کیا اور مولانا شبلی مطالعات میں مصروف ہو گیا، اب اللہ کا شکر ہے کہ میں نے مختلف گوشے اور عنوانات تلاش کیے اور ابتک میری جو کتابیں علامہ شبلی پر آئی ہیں ان میں کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس پر اس سے قبل کام ہوا ہو بالکل جدید موضوعات ہیں۔ نئے تحقیقات ہیں اور علامہ شبلی پر میری 22 کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں اور یہ کسی بھی عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو کسی ایک شخصیت پر کسی ایک شخص نے اتنا کام نہیں کیا ہے۔ یہ میں اپنی تعریف نہیں کر رہا ہوں، میرا مطلب ہے کہ اگر میں نے انتخاب کیا تھا تو وہ کام پوری ایمانداری و دلجمعی کے ساتھ مکمل کیا ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے اور جب میں نے علامہ شبلی پر معمولی کتاب لکھی 'علامہ شبلی سخنوروں' کی نظر میں تو بھارت کے بڑے بڑے لوگوں نے سید سخنوروں کی نظر میں، آزاد سخنوروں کی نظر میں ایک سلسلہ چل پڑا مولانا شبلی کے نام اہل علم کے خطوط تلاش کئے اور ایک کتاب مرتب کیا۔
شبلی کے نام اہل علم کے خطوط تو اس کے بعد یہ بھی سلسلہ چل پڑا اور جب میں نے ایک کتاب لکھی شبلی خود نوشتوں میں بھارت میں جو خود نوشتیں لکھی گئیں اور جو مشاہیر کے قلم سے ہیں۔ عہد شبلی سے لے کر اب تک جو بہت نمایاں قسم کے لوگ تھے ان کی خود نوشتیں تھیں اس میں شبلی کی ذکر جس انداز سے تھا جس بنیاد پر ذکر تھا اس پر ایک کتاب لکھی میں نے جس کا عنوان ہے شبلی خود نوشتوں میں اس پر معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی نے کہا تھا کہ تم نے تو ایک نیا موضوع تلاش دیا ہے۔ اردو ادب کے لیے اور اسی بنیاد پر انہوں نے اس کا پیش لفظ لکھا اور بہت تعریف کی کتاب کی اور وہ کتاب بہت مقبول بھی ہوئی اس لیے انتخاب کیا تھا کہ مولانا شبلی کے یہاں جامعیت بہت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شبلی نیشنل اسکول Shibli National School یہ مولانا شبلی کی پہلی یادگار ہے۔ یہ علی گڑھ جانے کے پانچ ماہ بعد 1883 میں اس کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے قیام کا مقصد اعظم گڑھ میں جدید تعلیم کو عام کرنا اور اس کو فروغ دینا تھا اور اس میں کافی حد تک وہ کامیاب بھی رہے۔ اس علاقے میں دوسرے علاقوں کے مقابل تعلیم کی جو بہاریں نظر آرہی ہیں وہ اسی کی وجہ سے ہیں لیکن شبلی نے صرف نیشنل اسکول قائم نہیں کیا تھا بلکہ اپنی جائے پیدائش بندول میں ایک مدرسہ عربیہ بھی قائم کیا تھا اور اس سے بھی بڑی بات کہ ان کا گھر ایک انقلابی گھرانہ تھا۔
- مزید پڑھیں:
دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ایک علمی و تحقیقی ادارہ