اترپردیش کی دارالحکومت لکھنؤ میں نوابی دور کی قدیم عمارتیں پورے شان و شوکت سے آج بھی سیاحوں کے لیے باعث کشش بنی ہوئی ہیں۔
اگر نوابی دور کے قدیم عمارتوں کی بات کریں تو یہاں پر بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ، شاہ نجف، بھول بھلیاں، رومی دروازہ، پکچر گیلری وغیرہ کئی ایسی عمارتیں ہیں، جہاں پر روزانہ کثیر تعداد میں ملک کے مختلف خطوں سے سیّاح سیروتفریح کے لئے آتے ہیں۔
یو پی کے لکھنؤ میں نوابی دور کی قدیم عمارتیں آج بھی سیاحوں کے لیے باعث کشش ہیں یہ سیاحتی مقامات حسین آباد ٹرسٹ کے زیر نگراں ہیں۔ یہاں پر سینکڑوں کی تعداد میں ملازمین کام کرتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے حسین آباد ٹرسٹ یونین کے فورتھ کلاس ملازمین نے ایک لیٹر جاری کیا تھا، جس میں اس بات کا ذکر تھا کہ ’’ہماری تنخواہ بہت کم ہے۔ لہذا ایڈوانس لینے پر تنخواہ میں کٹوتی نہ کی جائے۔‘‘
ای ٹی وی بھارت نے تمام ملازمین کی آواز بن کر یہ مسئلہ اٹھایا، جس کا نتیجہ ہوا کہ اب ملازمین کی آئندہ ماہ سے تنخواہ میں کٹوتی نہیں کی جائے گی۔
لاک ڈائون کے سبب یو پی میں سبھی سیاحتی مقامات بند ہیں فون پر بات چیت کے دوران ’’حسین آباد ٹرسٹ کامگار یونین‘‘ کے صدر وسیم حیدر نے کہا کہ ’’اعلیٰ افسران سے ہماری بات چیت ہو گئی ہے انہوں نے بھروسہ دلایا ہے کہ آئندہ ماہ سے کٹوتی نہیں کی جائے گی۔‘‘
وسیم حیدر نے بتایا کہ ’’ہمیں اس مہنگائی کے دور میں محض 4600 روپے تنخواہ ملتی ہے، جس میں اہل خانہ کی کفالت بہت مشکل ہے۔ کورونا وائرس کے سبب کچھ بند ہے۔ جس کے سبب ہماری گائیڈ کے طور پر جو آمدنی ہوتی تھی وہ بھی بند ہو چکی ہے۔‘‘
سیاحتی مقامات بند ہونے کے سبب یہاں کام کر رہے کئی افراد کی روزی روٹی متاثر ہوئی ہے ’’اگر یہ (لاک ڈائون کا) سلسلہ مزید دو تین ماہ تک بڑھ گیا، تو ہمارے لیے اہل و عیال کی کفالت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے ہم ٹرسٹ کے اعلیٰ افسران سے درخواست کریں گے کہ وہ ہماری تنخواہ کے علاوہ ٹرسٹ فنڈ سے مالی معاونت بھی کریں۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ یہاں کے ملازمین کی آمدنی کا ذریعہ بطور گائیڈ ہے۔ جب سیاح بھول بھلیاں گھومنے جاتے ہیں، تب انہیں گائیڈ کی خدمات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایک سے دو سیاحوں کے لئے 100 روپے لگتے ہیں، جو ایک گائیڈ کی آمدنی ہوتی ہے۔
لاک ڈاؤن کے بعد سے انکی بطور گائیڈ آمدنی بند ہو چکی ہے اور اب وہ صرف 4600 روپے ماہانہ تنخواہ پر زندگی گزار رہے ہیں۔
حسین آباد ٹرسٹ کے ملازمین اضافی تنخواہ کے لئے احتجاج کرتے رہتے ہیں تاہم ذمہ داران اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔