اسی سلسلے میں، مدرسہ منظر اسلام کی اس ”ای پاٹھشالہ“ کے ذریعے، ڈسٹرکٹ اقلیتی بہبود افسر جگموہن یادو کے قیادت کے زیر اہتمام،مدرسہ کے سینئر استاد مفتی محمد سلیم نوری نے جنگ آزادی میں اور ہندوستان کو برطانوی حکومت سے آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کرنے والے نواب سلیم اللہ خان کے خصوصی تعاون پر روشنی ڈالتے نوجوانوں کو بتایا کہ ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خان نے نواب سراج الدولہ کے بعد بنگال کی سرزمین پر برطانوی حکومت کے خلاف ایک مضبوط آواز بلند کی تھی۔ وہ لندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے ہہ ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحاد کے بغیر ہندوستانیوں کو انگریزی حکومت سے آزادی نہیں مل سکتی۔
چنانچہ اُنہوں نے پورے مشرقی اور مغربی تمام بنگالیوں کو متحد کر لیا۔ بنگال کے ہر شہری کے دل میں آزادی کی شمع روشن کی۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی مہم چلائی۔استاد مفتی محمد سلیم نوری بریلوی نے یہ بھی بتایا کہ نواب سلیم اللہ نے بھی اپنی سفارت کاری سے بنگال اور بنگالیوں کے مفادات کا تحفظ کیا۔ آزادی کے مجاہدین کو ایک بہت بڑا، مضبوط اور محفوظ پلیٹ فارم فراہم کیا۔ سنہ 1906ء میں، آل انڈیا مسلم لیگ باضابطہ طور پر قائم ہوئی اور نواب سلیم اللہ اس کے بانی صدر منتخب ہوئے۔ اُنہوں نے ڈھاکہ میں ایک بہت بڑی تعلیمی کانفرنس کا بھی انعقاد کیا، جس میں مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا شوکت جیسے رہنماؤں نے شرکت کی۔
مدررسہ منظر اسلام کے آئی ٹی سیل کے انچارج زبری رضا خاں نے بتایا کہ مدرسہ منظر اسلام اپنی ”ای پاٹھشالہ “ یعنی آن لائن درس و تدریس کے زیر اہتمام اس خصوصی پروگرام کے ذریعے ہمارے نوجوان، مسلم انقلابیوں کی بہادری اور تاریخ کے بابت بہترین علم حاصل کر رہے ہیں اور علم کے حصول میں خاص دلچسپی بھی لے رہے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ نواب سلیم اللہ خان محض 43 برس کی چھوٹی عمر میں رحلت فرما گئے، لیکن وہ بنگال کی سرزمین پر آزادی کی ایسی کہانی ایسی عبارت لکھکر گئے، جو بعد میں ہندوستان کی آزادی میں میل کا پتھر ثابت ہوئی۔ سنہ 1913ء میں وہ رحلت فرما گئے۔مفتی سلیم نوری نے آن لائن تقریر کرتے ہوئے کہا کہ نواب سلیم اللہ خان ایک سچے مسلمان اور ایک سچے عاشق ملک بھی تھے۔ وہ پہلے مسلمان تھے، جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی شدید مخالفت کی تھی۔ وہ بنگال میں تعلیم کے سرپرست تھے۔
اُن کا خیال تھا کہ برطانوی حکمرانی سے آزادی کے لئے، جہاں ایک طرف بہادر انقلابیوں کی ضرورت ہے، تو وہیں دوسری طرف ہندوستان کو بھی ایک تعلیم یافتہ معاشرے کی ضرورت ہے۔ نواب سلیم اللہ خان نے ڈھاکہ میں ایک یونیورسٹی اور ممتاز ”احسان اللہ اسکول آف انجینئرنگ“ قائم کیا۔ اُنہوں نے اخبارات کے ذریعہ مسلم رہنماؤں کو درخواست نامہ شائع کرکے ”آل انڈیا مسلم کنفیڈریشن“ کے قیام کی تجویز پیش کی۔ اُنہیں اپنے وطن ہندستان سے لازوال محبت تھی۔ ایسے ملک سے محبت کرنے والوں کی وجہ سے، آج ہم اس ملک میں آزادی کا سانس لے رہے ہیں۔ ان سے متاثر ہوکر ہمیں اپنے ملک کی سالمیت اور ہم آہنگی کے تحفظ کے لئے ہر وقت جدوجہد کرنی چاہئے۔