بلند بالا اور جسیم پتھروں کی یہ تعمیر تقریباً ساٹھ مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔
قدیم ترین یہ تعمیری ورثہ محل ہے یا عبادت گاہ؟ آثار قدیمہ نے سنہ 1965 میں کھدائی کرکے اسے نکالا تھا۔ تحقیقات کے بعد یہ سامنے آیا کہ یہ ایپل قبیلہ کے راجہ اونتی ورمن کے دور میں تعمیر کیا گیا ہے۔ تاہم یہ معلوم نہ ہو سکا ہے کہ آیا یہ مندر ہے یا محل۔
چند مقامی لوگوں کے مطابق انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ یہ راجہ دشرتھ کی بیوی رانی کیتکی کا محل تھا۔ لیکن اس کے بارے میں مکمل تفصیلات ابھی تک نہیں مل سکی ہے۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ رانی کیتکی کو کیکہ رانی بھی کہا جاتا تھا اور انہیں کے نام سے اس وقت اس جگہ کا نام رکھا گیا جو بعد میں کاکہ پورہ ہو گیا۔ چند لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ پانڈوں کی تعمیر ہے۔
واضح رہے کہ اونتی پورہ میں راجہ اونتی رومن کا محل، پائر میں پانڈوں کا مندر جبکہ دو دیگر مقامات پر صدیوں پرانی انجان تعمیرات ہیں۔
آج کل اس جگہ کے چاروں اطراف رہائشی مکانات تعمیر ہیں جبکہ زمین کی سطح بھی کافی کم ہوگئی ہے اور یہ بقیہ مکانات کی سطح کے مقابلے تقریباً پندرہ فٹ نیچے ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے اس ورثہ کی دیکھ دیکھ کے لئے ایک عارضی ملازم تعینات کیا گیا ہے۔
لوگوں کے مطابق گاؤں میں ایک اور ایسی ہی تعمیر تھی جو چند برسوں قبل فوج نے اپنے تحویل میں لے لیا۔ انہوں نے اس جگہ پر ایک مندر اور ایک مسجد تعمیر کی۔
مقامی لوگوں کی خواہش ہے کہ حکومت اس قدیم ورثے کا تحفظ کرے اور دنیا کو اس تاریخی حیثیت کے حامل جگہ کے بارے میں جانکاری فراہم کرے تاکہ یہاں کثیر تعداد میں سیاح و دیگر افراد آئیں اور اس پر نئے سرے سے تحقیق کی جائے۔ تاکہ ان کی یہ جگہ بھی دنیا بھر میں جانی پہچانی جائے۔