کولکاتا شہر میں کئی قدیم ملی ادارے موجود ہیں۔ ان میں کچھ ادارے ایسے ہیں جن کی عمر سو سال سے بھی زائد ہے، جن کا ماضی بہت شاندار رہا ہے۔ ان اداروں نے ملت کی برسوں خدمت کی ہے لیکن گزشتہ کئی برسوں سے شہر کے بیشتر ملی ادارے تنازعات کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں۔
یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ بھی ان اداروں میں شامل ہے جس کی بنیاد دور ملت کا درد رکھنے والے مسلمانوں نے رکھی تھی لیکن آج یہ ادارے تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ میں گزشتہ ایک سال سے بچوں کی اکثریت کو لاک ڈاؤن کے دوران ان کے رشتہ داروں کے یہاں بھیج دیا گیا ہے۔ تو دوسری جانب برسوں پہلے یتیم خانہ کے فنڈ میں خرد برد کا معاملہ ابھی بھی معمہ بنا ہوا ہے اور اب یتیم خانہ اسلامیہ 6 نمبر سید عامر علی ایونیو میں موجود شعبہ اطفال کو خود کفیل بنانے کے نام پر کمرشیل مقاصد کے لئے استعمال میں لانے کی بات سے عوام میں برہمی ہے۔
بلڈنگ سب کمیٹی کے سابق سکریٹری کے استعفیٰ دینے کے بعد سے اب اس عہدے کے لئے موجودہ انتطامیہ کمیٹی میں گروہ بندی ہوگئی ہے اور بلڈنگ سب کمیٹی کے سکریٹری کا عہدہ خود موجودہ صدر کے اپنے ہاتھوں میں لینے سے تنازعہ ہوگیا ہے۔ ان سب کے درمیان اس تاریخی ادارے کی ہورہی بدنامی سے کولکاتا کے مسلمانوں میں سخت ناراضگی پائی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی کولکاتا کے لوگ یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔
یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ روز بروز تنازعات سے عوام میں برہمی اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے کولکاتا کے کچھ لوگوں سے جب بات کی تو ان کی طرف سے سخت برہمی کااظہار کیا گیا۔ سینیر صحافی محمد ہاشم نے ای ٹی وی بھارت کو یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ کی موجودہ صورت حال پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ، غریب یتیموں کی کفالت کے لئے قائم کیا گیا تھا لیکن گزشتہ ایک سال زیادہ عرصے سے بچوں کو ان کے رشتے داروں کے یہاں بھیج دیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو یتیم خانہ کو قائم کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ ان یتیم بچوں کو واپس لانے کے بجائے انتظامیہ کمیٹی کے ارکان بلڈنگ سب کمیٹی کے عہدے کے لئے آپس میں لڑرہے ہیں جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ یتیم خانہ میں موجودہ تنازعہ کی بنیاد بھی وہی بلڈنگ سب کمیٹی اور 6 نمبر سید عامر علی ایوینیو کی نئی عمارت ہے۔ جس کی تعمیرِنو کی گئی، پہلے وہاں سے بچوں کو لاکر سید صالح علی لین میں رکھ دیا گیا لیکن جب عمارت تیار ہوگئی تو اب اس کو کمرشیل مقاصد کے لیے استعمال کی بات ہورہی اور خود کفیلی کا ڈرامہ کیا جارہا ہے۔ بچوں کو واپس نہیں لایا جارہا ہے۔ یتیم خانہ کا 44 لاکھ روپئے ٹیکس کے طور پر کارپوریشن کو ادا کیا گیا جب کہ دوسرے ملی اداروں کے پراپرٹی ٹیکس کوشش کرکے معاف کروایا گیا اس کا بھی معاف کرایا جا سکتا تھا لیکن ان کی آپسی رنجش کی وجہ سے یتیم خانہ کو 44 لاکھ ٹیکس کے طور پر ادا کرنا پڑا اور یتیم خانہ کا جو اصل کام ہے وہ ان لوگوں کی آپسی چپقلش کی وجہ سے نہیں ہو پارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بنگال گورنر جگدیپ دھنکر کا این آر سی مخالف وفد سے ملنے سے گریز
ای ٹی وی بھارت سے ایک اور سماجی کارکن محمد حسین رضوی نے کہا کہ کولکاتا کے تقریباً تمام ملی اداروں کا حال یہی ہے۔ سیاسی مداخلت کی وجہ سے یہ تمام ادارے تنزلی کے شکار ہیں۔ کلکتہ یتیم خانہ اسلامیہ کی بنیاد ابوالحسن اور سی کے فضل الحق جیسی شخصیات نے رکھی تھی۔ یتیم خانہ کی موجودہ کمیٹی کے ارکان مختلف سب کمیٹی کے سربراہ بننے کے لئے آپس میں لڑرہے ہیں اور روزانہ غلط وجہوں سے اخبارات کی زینت بن رہے ہیں اور ایسا یتیموں کے مال کی حفاظت نہیں بلکہ خیانت کے لئے کررہے ہیں۔ دوسری بات یہ جو لڑائی ہو رہی ہے وہ یتیم خانہ کے سید عامر علی ایونیو میں موجود عمارت کا کام کون کریں گے۔ کن کے لوگ کریں گے، یہ ان کی آپسی لڑائی ہے یتیم خانہ کی حفاظت کی لڑائی نہیں ہے۔ دو برسوں سے یتیم خانہ کے بچے اپنے رشتے داروں کے گھر پر ہیں ان کی ان کو کوئی فکر نہیں ہے اگر یہ لوگ ان کی فلاح و بہبود کے لئے فکرمند ہوتے تو ان کے لئے کچھ کرتے لیکن یہ لوگ مفاد کی لڑائی میں مصروف ہیں۔