مغربی بنگال کے بیربھوم ضلع ان دنوں رامپور ہاٹ کے باگٹوی گاؤں میں ہوئے تشدد میں آٹھ افراد کی ہلاکت کی وجہ سے نہ صرف ریاست بلکہ پورے میں موضوع بحث ہے۔ History of Muslim Rulers in Birbhum۔ وہیں ہم آج آپ کو بیر بھوم کی تاریخ سے واقف کرانے جارہے ہیں جہاں کبھی مسلم حکمرانوں ہوا کرتی تھی جس کی مثالیں آج بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
بیربھوم پر کبھی مسلمانوں کی حکمرانی تھی جس کی علامات آج بھی موجود ہیں
لیکن ایک زمانہ تھا جب بیربھوم ضلع اپنی تاریخ اور لال ماٹی (مٹی)، رویندر ناتھ ٹائیگور، وسوا بھارتی یونیورسٹی اور مسلم حکمرانوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ پانچویں صدی بی سی میں جین اور بودھ مذہب کی کتابوں میں بیربھوم ضلع کا ذکر ہے۔ مووریہ دور حکومت میں بیربھوم ضلع میں ہندو مذہب کو فروغ ملا، 12ویں صدی میں دور بدلا اور پالاس(palas) کے حکمرانوں نے ضلع کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھالی، لیکن پالاس کا یہ دور مختصر رہا۔
بیربھوم پر کبھی مسلمانوں کی حکمرانی تھی جس کی علامات آج بھی موجود ہیں
13 ویں صدی میں بیربھوم ضلع میں مسلم حکمرانوں کی آمد ہوتی ہے۔ مسلم حکمرانوں نے ضلع کی تاریخ میں ردو بدل کرنے کے بجائے ضلع کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ تباقت نصری (Tabaqat - i-Nisiri)کتاب کے مطابق ہندو چیف بیر راجہ کو ضلع کے مغربی حصے کو حوالے کر دیا، لیکن اہم فیصلہ لینے کی ذمہ داری اپنے پاس ہی رکھا۔'
مسلم حکمرانوں نے حاتم پور، بیرسنگ پور، راج نگر اور رامپور ہاٹ کو اپنے حصے میں رکھا۔ ان علاقوں میں ڈھیر سارے ترقیاتی کاموں کو انجام دیا گیا، جس کی مثالیں آج بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مسلم حکمرانوں کے دور میں بیربھوم ضلع میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو ترقی اور پھلنے پھولنے کے یکساں مواقع ملے، اس وقت یہ ضلع معاشی اور ثقافتی اعتبار سے خوشحال ضلع ہوا کرتا تھا۔
بیربھوم پر کبھی مسلمانوں کی حکمرانی تھی جس کی علامات آج بھی موجود ہیں سنہ 1787 کے مسلم حکمرانوں کے کمزور پڑنے کے سبب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی قدم جمانا شروع کرتی ہے، سنہ 1793 تک برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی ضلع پر مکمل طور قابض ہو جاتی ہے۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مسلم حکمرانوں کے ادھورے ترقیاتی کاموں کو آگے لے گئی اور ضلع کو نیا رنگ دیا۔ انگریزوں کے دور میں شیوڑی، بولپور، نل ہٹی، شانتی نیکیتن، دیب راج پور اور رامپور ہاٹ کو سجایا سنوارا۔
ملک کی آزادی کے بعد بھی بیربھوم ضلع کو ٹھاکر رویندر ناتھ ٹائیگور کے وسوا بھارتی یونیورسٹی کے سبب پوری دنیا میں ایک منفرد پہچان ملی جو آج بھی برقرار ہے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بیربھوم ضلع اپنی اہمیت برقرار رکھ نہیں پائی اور ترقی کی دوڑ میں دوسرے اضلاع سے کافی پیچھے رہ گیا۔ لال مٹی کے لیے مشہور ضلع کے لوگ خاص طور پر اقلیتی طبقہ پسماندگی کی تاریکی میں گم ہوگئے'۔
بیربھوم پر کبھی مسلمانوں کی حکمرانی تھی جس کی علامات آج بھی موجود ہیں
مغربی بنگال میں کانگریس کے دور حکومت میں ماؤنواز تنطیمیں سر اٹھانے لگی، لفٹ فرنٹ کے 34 سالہ دور حکومت میں ماؤنواز تنظیمیں درد سر بنی رہیں۔ لفٹ فرنٹ کے 34 سالہ دور حکومت کے خاتمے کے بعد ممتابنرجی کی قیادت والی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس اقتدار میں آئی۔ دور بدلا، حکومتیں بدلی، لیکن لال مٹی کی سرزمین پر رہنے والے لوگوں کی قسمت نہیں بدلی۔
ضلع میں مسلمانوں کی کل آبادی 40 فیصد ہیں لیکن یہ قوم پسماندوں کی فہرست میں سب سے آگے ہے۔ اس کی مثالیں گزشتہ 21 مارچ کی رات کو مل گئی جب چند مھٹی بھر لوگوں نے یکے بعد دس سے بارہ گھروں میں آگ کے حوالے کردیا۔ دو بچوں سمیت آٹھ (مغربی بنگال حکومت کے عدد و شمار کے مطابق ) لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا۔' اب تک پتہ نہیں چل سکا کہ حملہ کرنے والے کون لوگ تھے، ان کا تعلق کس پارٹی سے تھا اور معصوم لوگوں کو زندہ کیوں جلایا گیا۔ کہنے کو وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے معاملے کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی قائم کر دی، آتشزنی میں ہلاک ہونے والے لوگوں کے رشتہ داروں کو 5-5 لاکھ روپے معاوضہ اور غیر مستقل ملازمت دینے کا اعلان کیا۔وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے اپنی ہی پارٹی ترنمول کانگریس کے رامپور ہاٹ ایک نمبر بلاک صدر انورالحق حسین کو گرفتار بھی کروا دی، اس معاملے میں اب تک 22 لوگوں کی گرفتاری عمل میں آ چکی ہے۔ ان سب کے درمیان عام لوگوں کے ذہین میں ایک سوال گردش کر رہا ہے کہ مغربی بنگال میں اقلیتی طبقے آسان ہدف بن گئے ہیں۔ جنوری مہینے میں ملک کی دوسری ریاستوں کے مقابلے مغربی بنگال میں اقلیتی طبقے کے لوگوں کو زیادہ نشانہ بنایا گیا۔
مزید پڑھیں: