اردو

urdu

ETV Bharat / city

حسرت جے پوری: کنڈکٹری، شاعری سے کامیاب نغمہ نگار تک کا شاندار سفر

ہندی فلموں میں جب بھی ٹائٹل گیتوں کا ذکر ہوتا ہے، نغمہ نگار حسرت جے پوری کا نام سب سے پہلے لیا جاتا ہے۔ ویسے تو حسرت جے پوری نے ہر طرح کے گیت لکھے لیکن فلموں کے ٹائٹل گیت لکھنے میں انہیں مہارت حاصل تھی۔

famous poet hasrat jaipuris birthday
حسرت جے پوری: کنڈکٹری، شاعری سے کامیاب نغمہ نگار تک کا شاندار سفر

By

Published : Apr 15, 2021, 9:26 AM IST

ہندی فلموں کے سنہری دور کے دوران ٹائٹل گیت لکھنا بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ فلمسازوں کو جب بھی ٹائٹل گیت کی ضرورت ہوتی تھی، سب سے پہلے حسرت جے پوری سے رابطہ کیا جاتا تھا۔ ان کے تحریر کردہ ٹائٹل گیتوں نے کئی فلموں کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

حسرت جے پوری کے قلم سے نکلے کچھ ٹائٹل گیت اس طرح ہیں: دیوانہ مجھ کو لوگ کہیں (دیوانہ)، دل ایک مندر ہے (دل ایک مندر)، رات اور دن دیا جلے (رات اور دن)، تیرے گھر کے سامنے ایک گھر بناؤں گا (تیرے گھر کے سامنے) این ایوننگ ان پیرس (این ایوننگ ان پیرس) گمنام ہے کوئی (گمنام)، دو جاسوس کریں محسوس (دو جاسوس)۔

حسرت جے پوری کا اصل نام اقبال حسین تھا۔ ان کی پیدائش 15 اپریل 1922 کو ہوئی تھی ۔ جے پور میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے دادا فدا حسین سے اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ 20 برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کا رجحان شاعری کی طرف مائل ہوگیا اور وہ چھوٹی چھوٹی غزلیں لکھنے لگے۔

سنہ 1940 میں فکر معاش میں حسرت جے پوری نے ممبئی کا رخ کیا اور زندگی گزارنے کے لی وہاں کنڈکٹر کی نوکری کرنے لگے۔ اس کام کے لیے انہیں صرف گیارہ روپے ماہ تنخواہ ملتی تھی۔ اس دوران انہوں نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ اسی دوران ایک پروگرام میں پرتھوی راج کپور ان کی غزل سے کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنے بیٹے راج کپور کو حسرت سے ملنے کی صلاح دی۔

راج کپور ان دنوں اپنی فلم 'برسات' کے لیے کسی نغمہ نگار کی تلاش میں تھے۔ انہوں نے حسرت جے پوری کو ملنے کی دعوت دی۔ راج کپور سے حسرت کی پہلی ملاقات 'رائل اوپیرا ہاؤس' میں ہوئی اور اپنی فلم برسات کے لیے ان سے گیت لکھنے کی فرمائش کی۔ یہ بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ فلم برسات سے ہی موسیقار شنکر جے کشن نے بھی اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا۔

راج کپور کے کہنے پر شنکر جے کشن نے حسرت جے پوری کو ایک دھن سنائی اور اس پر ان سے گیت لکھنے کو کہا۔ دھن کے بول کچھ اس طرح تھے 'امبوا کا پیڑ ہے وہیں منڈیر ہے، آجا مورے بالما کاہے کی دیر'۔ شنکر جے کشن کی اس دھن کو سن کر حسرت جے پوری نے جیہ بے قرار ہے، چھائی بہار ہے، آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے، گیت لکھا۔

سنہ 1949 میں ریلیز ہوئی فلم برسات میں اپنے اس گیت کی کامیابی کے بعد حسرت جے پوری فلمی دنیا میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ برسات کی کامیابی کے بعد راج کپور حسرت جے پوری اور شنکر جے کشن کی جوڑی نے کئی فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔

حسرت جے پوری کی جوڑی راج کپور کے ساتھ 1971 تک قائم رہی۔ سنگیت کار جے کشن کی موت کے بعد راج کپور نے حسرت جے پوری کی جگہ آنند بخشی کو اپنی فلموں کے لیے منتخب کیا۔

حالانکہ اپنی فلم پریم روگ کے لیے راج کپور نے ایک بار پھر سےحسرت جے پوری کو موقع دینا چاہا لیکن بات نہیں بنی۔ اس کے بعد حسرت جے پوری نے راج کپور کی فلم رام تیری گنگا میلی میں سن صاحبہ سن گیت لکھا جو کافی مقبول ہوا۔

حسرت جے پوری کو دو بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ حسرت جے پوری کو ورلڈ یورنیورسٹی ٹیبل کے ڈائریکٹ ایوارڈ اور اردو کانفرنس میں جوش ملیح آبادی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ فلم میرے حضور میں ہندی اور برج بھاشا میں جھنک جھنک تیری باجے پائل کے لیے امبیڈکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

حسرت جے پوری نے تین دہائیوں پر مشتمل اپنے فلمی کیئریر میں 300 سے زائد فلموں کے لیے تقریباً 2000 نغمے لکھے۔ اپنے نغموں سے سامعین کو محظوظ کرنے والے شاعر اور گیت کار 17 ستمبر 1999 کو اپنے مداحوں کے لیے 'تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے ، جب کبھی بھی سنو گے گیت میرے ، سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے' جیسا نغمہ چھوڑ کر اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details