اردو

urdu

ETV Bharat / city

نجی اراضی پر غیر قانونی افیم کی کاشت، پولیس کا چھاپہ

بہار کے ضلع گیا میں واقع بارہ چٹی علاقے میں محکمہ جنگلات نے سیکڑوں ہیکڑ زمین پر بھاکپا (ماووادی) کے ذریعے لگائی گئی افیم کو تباہ کیا۔

نجی اراضی پر غیر قانونی افیم کی کاشت، پولیس کا چھاپہ
نجی اراضی پر غیر قانونی افیم کی کاشت، پولیس کا چھاپہ

By

Published : Feb 15, 2021, 6:03 PM IST

ضلع گیا کا بارہ چٹی علاقہ نکسل متاثر علاقوں میں شمار ہوتا ہے اور افیم نکسلیوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 'یہاں سنہ 2005 سے سرکاری اور نجی اراضی پر غیر قانونی طور پر افیم کی کاشت پھل پھول رہی ہے، غریب اور بے سہارا افراد کو پیسوں کا لالچ دے کر نکسلی اور سیاسی رہنما افیم کی کھیتی کرواتے ہیں۔'

نجی اراضی پر غیر قانونی افیم کی کاشت، پولیس کا چھاپہ
گیا کے بارہ چٹی بلاک کے بمیر پنچایت میں محکمہ جنگلات اور این سی بی کی ٹیم نے پولیس کے تعاون سے افیم کی کھیتی کو تباہ کیا ہے۔ ٹیم نے کارروائی کرتے ہوئے ابھی کچھ دنوں میں دو سو ہیکٹر زمین پر لگے افیم کی کاشت کو تباہ کیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس علاقے میں قریب چھ سو ہیکٹر سرکاری و غیر سرکاری زمین پر افیم کی کاشت ہوئی ہے۔ محکمہ جنگلات اور پولیس اب ان مافیاوں کی شناخت کر رہی ہے جو افیم کی غیر قانونی کاشت کر رہے ہیں۔ اس کے لئے انہیں کئی سطحوں پر تلاش کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر اس کاشتکاری کے لیے مقامی طور پر کون پیسہ خرچ کر رہا ہے اور اس کا اہم لیڈر کون ہے؟ اس کا پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پیر کو کارروائی کرنے پہنچی ٹیم کی قیادت رینجر محمد افسر کر رہے تھے۔ محکمہ جنگل کے دفتر سے سی آرپی ایف، ایس ایس بی کے ستر جوانوں سمیت محکمہ جنگلات کے مردوخواتین نکلے تھے۔ بارہ چٹی کے رینجر محمد افسر نے بتایا کہ 'مقامی مخبروں کی بنا پر پہلے تحقیقات کی جاتی ہے۔ علاقے کا خفیہ جائزہ لیا جاتاہے اور پھر اس کے بعد پوری سیکورٹی کے ساتھ کارروائی کی جاتی ہے۔'

علاقہ نکسل متاثرہ ہے اس لئے سیکورٹی و اعلیٰ افسران سمیت پورا محکمہ حساس ہوتا ہے۔ بومیر گاؤں میں نجی زمین پر افیم کی کاشت پھل پھول رہی تھی۔ جے سی بی مشین لگا کر تباہ کیا گیا ہے۔

زمین مالکوں کے خلاف سرکل افسر کے ذریعے کارروائی کی جائے گی اور انہیں کے ذریعے مقامی تھانہ میں ایف آئی آر درج کرائی جائے گی کیونکہ بومیر میں سرکاری زمین پر نہیں بلکہ نجی زمین پر افیم کی کھیتی لگائی گئی تھی۔

نکسلی اور سیاسی رہنماء کراتے ہیں افیم کی کھیتی۔

بارہ چٹی کا علاقہ نکسلی علاقے میں شمار ہوتا ہے۔ بارہ چٹی میں ضلع پولیس کے علاوہ سی آر پی ایف، کوبرا اور ایس ایس بی کی ٹیم نکسلیوں پر شکنجہ کسنے کے لیے تعینات ہے۔ برسوں سے کہا جارہا ہے کہ بارہ چٹی علاقے میں جو افیم کی کھیتی ہورہی ہے اس میں بڑا ہاتھ ممنوعہ بھاکپا ماووادی کا ہوتا ہے۔ کیونکہ افیم کی کھیتی کے لیے انہیں زمین کو استعمال کیا جارہا ہے جو جنگلی علاقہ میں ہیں۔ زیادہ تر محکمہ جنگلات کی زمین پر یہ کاشت ہورہی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر نکسلیوں کا ہاتھ نہیں ہوتا تو جنگلی علاقے میں اس کاشت کا کرنا ممکن نہیں تھا اور نکسلیوں کی آمدنی کا یہ بڑا ذریعہ بتایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی سیاسی رہنماؤں کا بھی اس کھیتی کے پروان چڑھنے میں بڑا ہاتھ ہے۔


رینجر محمد افسر کہتے ہیں کہ' یہ حقیقت ہے کہ نکسلیوں کا افیم کی کاشت کرانے سیاسی رہنماؤں کا بھی بڑا ہاتھ ہے، پولیس اور محکمہ جنگلات کی مسلسل کارروائی سے نکسلی مالی طور پر بھی کمزور ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رہنماؤں نے بھی افیم کی کھیتی کروانے میں مدد کی ہے، علاقے کے رہنماؤں سے کئی بار میٹنگ کرکے اسے روکنے کے لیے تعاون کرنے کو کہا گیا ہے لیکن کبھی بھی رہنماؤں کی طرف سے مدد نہیں کی گئی ہے، خفیہ اطلاع ملتی ہے کہ افیم کی کاشت میں رہنماؤں کا بھی ہاتھ ہے'۔

غربت اور کم وقت میں زیادہ پیسے کی لالچ میں کی جارہی ہے افیم کی کاشت

بارہ چٹی کا علاقہ نہ صرف نکسل متاثر ہے بلکہ یہ اقتصادی طور پر کمزور بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ علاقے کے غریبوں کو افیم کی کاشت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، رینجر محمد افسر کہتے ہیں کہ افیم کی کھیتی کی وجہ لاعلمی اور غربت بھی ہے، کم وقت میں زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں لوگ پھنس جاتے ہیں۔

کئی ریاستوں میں ہوتی ہےافیم کی سپلائی


افیم تیار ہونے کے بعد مختلف ریاستوں میں سپلائی ہوتی ہے۔ رینجر محمد افسر کہتے ہیں کہ پنجاب، ہریانہ اور جھارکھنڈ کے علاقے میں افیم کی سپلائی ہوتی تھی جس پر این سی بی پولیس اور محکمہ جنگلات کی کارروائی کی وجہ سے بہت حد تک روکنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں:سنی وقف بورڈ کے حق میں پٹنہ ہائی کورٹ کا فیصلہ

پچھلے برس پولیس کو اس تعلق سے ثبوت بھی ملے تھے چونکہ نیشنل ہائی وے بارہ چٹی سے ہوکر گزرتا ہے اس لئے بڑی آسانی کے ساتھ اس کی سپلائی ہوتی تھی، اس میں ٹرک ڈرائیور اور جی ٹی روڈ پر واقع ہوٹل مالکان بھی شامل تھے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details