اردو

urdu

ETV Bharat / city

گیا: پری میٹرک اسکالرشپ میں بدعنوانی کا انکشاف

ضلع گیا میں پری میٹرک اسکالرشپ سیشن 2019-2020 سے متعلق بدعنوانی کا معاملہ سامنے آیا ہے، ضلع گیا کے بانکے بازار میں واقع منو انڈین پبلک اسکول میں زیر تعلیم 132 طلبا کے اکاؤنٹ میں میٹرک اسکالرشپ کی رقم آئی ہے جبکہ یہ تمام طلبہ منو انڈین پبلک اسکول میں زیر تعلیم نہیں ہیں۔

corruption in pre matric scholarship in gaya
بانکے بازار میں واقع منو انڈین پبلک اسکول

By

Published : Nov 9, 2020, 8:23 PM IST

مرکزی حکومت کی اسکیم پری میٹرک اسکالرشپ کے ذریعہ غریب اقلیتی طلباء کو مالی مدد پہنچائی جاتی ہے لیکن اب اس میں بھی بدعنوانی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔

ریاست بہار کے ضلع گیا میں بھی پری میٹرک اسکالرشپ سیشن 2019-2020 سے متعلق بدعنوانی کا معاملہ سامنے آیا ہے، ضلع گیا ہیڈکواٹر سے قریب پچاس کلو میٹر دوری پر واقع نکسل متاثرہ علاقہ بانکے بازار میں 'منو انڈین پبلک اسکول' میں زیر تعلیم طلبا کے نام پر 132 افراد کے اکاؤنٹ میں پری میٹرک اسکالرشپ کی رقم آئی ہے، جبکہ یہ تمام طلبا مذکورہ اسکول میں زیر تعلیم بھی نہیں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کسی کو 10 ہزار 700 روپے تو کسی کے کھاتے میں 5700 روپے آئے ہیں۔

گیا میں پری میٹرک اسکالرشپ میں بدعنوانی کا معاملہ

ذرائع کے مطابق منو انڈین پبلک اسکول میں اقلیتی طبقے کے بچوں کی تعداد نہ کے برابر ہونے کے باوجود وہاں کے اقلیتی طبقے کے طالب علموں کے نام پر اسکالرشپ کا پیسہ آیا ہے۔

اس بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے اسکالرشپ کی فہرست حاصل کرکے جائزہ لیا تو اس میں زیادہ لوگوں کا تعلق بانکے بازار سے باہر کا تھا، جس میں کچھ کا پتہ ضلع سے باہر کا بھی درج ہے، حالانکہ یہ پتے صحیح یا غلط ہیں اسکی ابھی پوری طرح سے تحقیق نہیں کی جاسکی ہے۔

اس فہرست میں بانکے بازار سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بارہ چٹی علاقے کا بھی پتہ ہے، اسی علاقے کے بندا گاؤں کے دو لوگوں کا پتہ معلوم ہونے کے بعد ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے اسکے گھر پہنچ کر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ دونوں منو انڈین پبلک اسکول کے طالب علم ہے ہی نہیں۔

صائمہ پروین نامی ایک طالبہ جو بندہ گاؤں کے قریب ہی اندرا کنیا ہائی اسکول سے 2020 میں میٹرک کا امتحان دے کر کامیابی حاصل کر چکی ہے، جبکہ دوسرا آفتاب انصاری جو کہ 2018 میں میٹرک امتحان میں سیکنڈ پوزیشن سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد آگے کی تعلیم جاری نہیں رکھ سکا ہے۔

آفتاب انصاری سرواں بازار کے ایک سیلون میں کام کرتا ہے، ان دونوں نے بتایا کہ چند ماہ قبل ایک شخص نے اسکالرشپ کا فارم اس شرط پر پُر کروایا تھا کہ پیسے آنے کے بعد نصف رقم وہ لے گا، اور دستاویز کے طور پر آدھار کارڈ و بینک پاس بک لیکر چلا گیا۔

اسکالرشپ پانے والے کا دعویٰ ہے کہ وہ شخص دوبارہ پیسے لینے واپس نہیں آیا ہے، انکا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس شخص کو نہ جانتے اور نہ ہی پہچانتے ہیں۔

منو انڈین پبلک اسکول پرنسپل راجیو کمار نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے ہیں، بلکہ انکے ساتھ کسی نے فراڈ کیا ہے جسکی اطلاع انہوں نے مقامی سطح پر افسران کو دی ہے، حالانکہ انہوں نے افسران سے کیا شکایت کی ہے؟ اسکی فوٹو کاپی مانگنے پر انھوں نے دینے سے انکار کردیا.

پرنسپل راجیو کمار نے پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم سے ہی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اسکے متعلق اب علم ہوا ہے، راجیوکمار کی یہ لاعلمی حیران کن اور مشکوک بھی ہے کیونکہ انکے مطابق ہی انکے اسکول میں ڈیڑھ سے دو سو کے قریب اسٹوڈنٹس ہیں جس میں پچیس طالب علم کا تعلق اقلیتی برادری سے ہے۔

پرنسپل راجیو کمار نے اعتراف کیا کہ ان سے کچھ ماہ قبل کسی شخص کا اسکالرشپ فارم بھروانے کے متعلق فون ضرور آیا تھا، حالانکہ یہاں بھی انہوں نے اس شخص کو جاننے سے لاعلمی کا اظہار کردیا۔ اسکول کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ سنہ 2007 میں اسکا قیام عمل میں آیا تھا۔

اس سلسلے میں ضلع اقلیتی بہبود افسر جتیندر کمار نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ روشنی میں آنے کے بعد تحقیقات کی جا رہی ہے، اگر ایسا ہوا ہے تو ہر حال میں قصورواروں کو سزا دی جائے گی، انہوں نے کہا کہ جانچ پڑتال کے بعد ایف آئی آر درج کی جائے گی۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details