مرکزی حکومت کی اسکیم پری میٹرک اسکالرشپ کے ذریعہ غریب اقلیتی طلباء کو مالی مدد پہنچائی جاتی ہے لیکن اب اس میں بھی بدعنوانی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
ریاست بہار کے ضلع گیا میں بھی پری میٹرک اسکالرشپ سیشن 2019-2020 سے متعلق بدعنوانی کا معاملہ سامنے آیا ہے، ضلع گیا ہیڈکواٹر سے قریب پچاس کلو میٹر دوری پر واقع نکسل متاثرہ علاقہ بانکے بازار میں 'منو انڈین پبلک اسکول' میں زیر تعلیم طلبا کے نام پر 132 افراد کے اکاؤنٹ میں پری میٹرک اسکالرشپ کی رقم آئی ہے، جبکہ یہ تمام طلبا مذکورہ اسکول میں زیر تعلیم بھی نہیں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کسی کو 10 ہزار 700 روپے تو کسی کے کھاتے میں 5700 روپے آئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق منو انڈین پبلک اسکول میں اقلیتی طبقے کے بچوں کی تعداد نہ کے برابر ہونے کے باوجود وہاں کے اقلیتی طبقے کے طالب علموں کے نام پر اسکالرشپ کا پیسہ آیا ہے۔
اس بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے اسکالرشپ کی فہرست حاصل کرکے جائزہ لیا تو اس میں زیادہ لوگوں کا تعلق بانکے بازار سے باہر کا تھا، جس میں کچھ کا پتہ ضلع سے باہر کا بھی درج ہے، حالانکہ یہ پتے صحیح یا غلط ہیں اسکی ابھی پوری طرح سے تحقیق نہیں کی جاسکی ہے۔
اس فہرست میں بانکے بازار سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بارہ چٹی علاقے کا بھی پتہ ہے، اسی علاقے کے بندا گاؤں کے دو لوگوں کا پتہ معلوم ہونے کے بعد ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے اسکے گھر پہنچ کر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ دونوں منو انڈین پبلک اسکول کے طالب علم ہے ہی نہیں۔
صائمہ پروین نامی ایک طالبہ جو بندہ گاؤں کے قریب ہی اندرا کنیا ہائی اسکول سے 2020 میں میٹرک کا امتحان دے کر کامیابی حاصل کر چکی ہے، جبکہ دوسرا آفتاب انصاری جو کہ 2018 میں میٹرک امتحان میں سیکنڈ پوزیشن سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد آگے کی تعلیم جاری نہیں رکھ سکا ہے۔