معروف مؤرخ عبدالستار کے مطابق 'محرم الحرام کوئی تہوار نہیں ہے بلکہ یہ اسلامی سنہ ہجری کا پہلا مہینہ ہے۔ عالم اسلام میں محرم کی نو اور دس تاریخ کو روزے رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور مسجدوں و گھروں میں عبادت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔'
عبدالستار بتاتے ہیں کہ 'تعزیہ داری کا رواج خالص بھارتی ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی شروعات 14ویں صدی میں شیعہ بادشاہ تیمور لنگ نے کی تھی۔ تب سے بھارت میں شیعہ سنی مل جل کر تجزیہ داری کرتے آ رہے ہیں'۔
عبدالستار کہتے ہیں کہ 'بھارت میں تعزیہ کی تاریخ اور بادشاہ تیمور لنگ کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ تیمور ترکی سے تعلق رکھتا تھا اور پوری دنیا پر حکومت کرنا اس کا خواب تھا'۔
بھارت میں تعزیہ داری کی تاریخ انہوں نے مذید بتایا کہ 'سنہ 1336 کو سمرقند کے قریب ترانس آکسانیا میں تیمور لنگ کی پیدائش ہوئی، تیمور کو جنگ کی تربیت چنگیز خان کے بیٹے چغتائی نے دی تھی۔ اور محض 13 برس کی عمر میں تیمور چغتائی ترکوں کا سردار بن گیا۔ جب تیمور افغانستان اور روس کے علاقوں پر فتح حاصل کرتا ہوا 1398 میں بھارت آیا تو اس کے ساتھ 98 ہزار کا لشکر بھی ساتھ تھا'۔
مورخ عبد الستار بتاتے ہیں کہ دہلی میں پہنچ کر تیمون نے تغلق سے جنگ لڑی اور دہلی کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ تیمور شیعہ تھا اس لیے ہر برس محرم الحرام کے ماہ میں عراق ضرور جاتا تھا لیکن اسے اپنے پیچھے یہ ڈر ستاتا تھا کہ کہیں اس کا تختہ پلٹ نہ ہو جائے اس لیے اس نے بھارت میں رہ کر ہی محرم منانے کا فیصلہ کیا'۔
تبھی سے اس کا رواج شروع ہوا اور آج بھارت سمیت پاکستان، بنگلہ دیش اور میانمار میں ماہ محرم الحرام کے ابتدائی ایام میں تعزیہ داری کا اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ تیمور کے آبائی وطن ازبکستان، قزاکستان یا ایران میں تعزیہ داری یا اس سے جڑی کسی طرح کی روایت کا کوئی وجود نہیں ہے۔