دو ماہ قبل دہلی میں ایک 23 سالہ نوجوان ساحل کی ہجومی تشدد میں موت ہوگئی تھی، اہل خانہ کے مطابق شرپسندوں نے ساحل کو مسلم ہونے کے شبے میں تشدد کا نشانہ بنایا تھا، چشم دید گواہوں نے بھی اس سلسلے میں اندیشہ ظاہر کیا تھا، اس اندیشے کو مزید تقویت اس وقت ملی جب پولیس مذکورہ سانحہ کو لیپا پوتی کرنے کی کوشش کی۔
'مسلم نام کی وجہ سے قتل کردیا گیا'
مسلم نام کے شبے میں ہجومی تشدد کے شکار ساحل سنگھ کے والد نے کہا کہ 'ساحل ایک مسلم نام تھا، جس کی وجہ سے میرا بیٹا مارا گیا، ہمیں پولیس سے بھی دھمکیاں مل رہی ہیں'۔
ساحل سنگھ کے والد سنیل سنگھ اب انصاف کے لیے در بدر بھٹک رہے ہیں۔ سنیل سنگھ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ' پولیس ہمیں تعاون کرنے کی بجائے دھمکیاں دے رہی ہیں، کیونکہ دہلی پولیس میں ملزمین کے رشتےدار ہیں۔
دراصل رواں برس کے اگست کی 31 تاریخ کو ساحل سنگھ کی موت کی خبر سامنے آئی، بتایا گیا کہ شمال مشرقی دہلی کے موج پور میں ساحل سنگھ کا کچھ لڑکوں سے تنازع ہو گیا تھا، جس میں ساحل سنگھ زخمی ہو گئے اور اس کی تاب نہ لاکر ان کی موقع پر ہی موت ہو گئی۔ پولیس نے 302 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔
لیکن اہل خانہ نے اسے ہجومی تشدد قرار دیتے ہوئے ہیٹ کرائم کے تحت مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی جسے پولیس نے تسلیم نہیں کیا۔
ساحل سنگھ کے والدین پولیس کے رویہ سے افسردہ ہیں اور انصاف کے لیے مسلسل جد جہد کررہے ہیں۔