سچر کمیٹی نے 13 برس قبل سرکاری محکموں اور پبلک سیکٹر کی ملازمتوں میں اقلیتوں کو 15 فیصد اور مسلمانوں کو از کم سے کم 10 فیصد نمائندگی دینے کی سفارش کی تھی، جس پر عمل نہیں کیا گیا۔
دہلی اقلیتی کمیشن نے ڈی ایم سی ایکٹ 1999 اور ضوابط 2000 کے مطابق ایک سروے کیا ہے، جس میں پتہ چلا کہ سرکاری و نیم سرکاری محکموں میں اقلیت بالخصوص مسلمانوں کی شرح دن بہ دن گھٹتی جا رہی ہے، کئی ایسے محکمے ہیں جہاں مسلم ملازمین صفر ہیں، یہ حالت اس وقت ہے جب برسوں تک مسلمانوں اور اقلیتوں کی خوشنودی کے الزامات لگتے رہے، مگر زمینی سطح پر خوشنودی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
دہلی حکومت کے محکمہ ثقافت میں کل ملازمین 45 ہیں لیکن اقلیت صفر، نہ مسلمان اور نہ ہی کوئی دوسری اقلیت کی حصہ داری ہے، محکمہ آرکائیوز میں کل ملازمین 17 مگر اقلیت صفر، سندھی اکیڈمی میں کل ملازمین 20 مگر اقلیت صفر، ڈاکٹر گوسوامی پرتشٹھان میں کل ملازمین دو مگر اقلیت صفر، پنجابی اکیڈمی میں کل ملازمین 51 مگر اس میں ایک بھی مسلم ملازم نہیں ہیں جبکہ اردو اکیڈمی میں کئی عدد ہندو ملازمین ہیں، متھالی بھوجپوری اکیڈمی میں کل ملازمین چار ہیں مگر اقلیت صفرآ، ثار قدیمہ میں کل ملازمین 25 جس میں آٹھ مسلم ملازمین (دیگر محکموں کے مطابق زیادہ) جبکہ جین طبقہ کے چار اور ایک سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
محکمہ آڈٹ میں اقلیتوں کی حصہ داری 5.8 فیصد، شہری ترقی میں 4.25 فیصد، محکمہ مویشی میں 0 فیصد، دیہی ترقی میں 0 فیصد، محکمہ اقتصادیات اور شماریات میں 3.48 فیصد، محکمہ تعلیم میں کل ملازمین کی تعداد 48 ہزار 44 ہے جس میں مسلم ملازمین صرف 2.83 ہیں جبکہ دیگر اقلیت کو ملا کر یہ فیصد 5.98 فیصد تک پہنچتی ہے۔ محکمہ روزگار میں اقلیتوں کی حصہ داری صرف 5.19 فیصد، محکمہ خوراک و رسد میں اقلیت 5.66 ہے، محکمہ جنگلات اور عام ادارہ جات نے کوئی تفصیل نہیں دی۔