اردو

urdu

ETV Bharat / city

ای ٹی بھارت کی سلمان خورشید سے خصوصی بات چیت

سینئر صحافی امت اگنی ہوتری نے کانگریس کے اعلی رہنما سلمان خورشید سے شہری ترمیمی قانون اور مجوزہ نیشنل رجسٹر آبادی سے متعلق بات چیت کی۔

salman khursheed
salman khursheed

By

Published : Feb 26, 2020, 3:29 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 3:35 PM IST

شہری ترمیمی قانون اور مجوزہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز(این آرسی)کے حامیوں اور اور اسکی مخالفت کرنے والوں کے بیچ ٹکراؤ کی وجہ سے دلی کی سڑکوں پر تشدد ہورہا ہے۔اس صورتحال کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک انتہائی مایوس کن صورتحال ہے۔حکومت نے ایک ایسا فیصلہ لیا ہے جو مکمل طور پر غیر مستحکم ہے، اسکا کوئی جائز مقصد نہیں ہے، جیسا کہ بطورِ وکلاء ہمیں یقین ہے اور چونکہ یہ معاملہ عدالت کے سامنے زیرِ التوا ہے لہٰذا عدالت ہی اس بارے میں کوئی فیصلہ لے سکتی ہے۔اگر عدالت نے اس معاملے کو فوری طورپر اٹھایا ہوتا یہ تکلیف دہ صورتحال پیش نہیں آتی۔حکومت انتہائی غیر ذمہ داری کے ساتھ کام کر رہی ہے۔لوگوں میں کافی اختلافِ رائے ہے اور ایک ذمہ دار حکومت کو ان خدشات کو قبول کرکے مذاکرات کے ذریعہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ ان خدشات میں کوئی جواز تو نہیں ہے۔لیکن موجودہ حکومت سب کچھ اُجاڑ رہی ہے۔پارلیمنٹ میں بھی انہوں نے اسے پاس کرکے ایسا ہی کیا، جہاں انہیں بھاری اکثریت حاصل ہے۔لیکن انہوں نے ملک میں اس متنازعہ قانون کو لانے کی کوشش کی ہے جبکہ ان قوانین کی جوازیت کے بارے میں واضح شکوک اور خدشات ہیں اور حکومت نے اس طرف مکمل طور پر اپنی آنکھیں مند رکھیں ہیں جو افسوسناک بات ہے۔

'سی اے اے کی مخالفت کر رہے لوگوں کے سامنے مرکز آنکھ موندے ہوئے ہے'

لیکن شہریوں کے ایک طبقہ کی یہ شکایت رہی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے ایک عام راستے کو بند کرکے عوام کو تکلیف میں ڈالا ہوا ہے۔سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں مداخلت کی ہے۔آپ کے خیالات کیا ہیں؟

جب چوراہوں کے اہم مقامات پر احتجاج ہوتے ہیں تو کچھ لوگوں کو تکلیف ہونے کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے لیکن جو کچھ ہم نے پچھلے کچھ دنوں میں دیکھا ہے وہ ان لوگوں کی پیدا کردہ مکمل تباہی ہے، جو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ حکومت کی (متنازعہ قوانین کو لیکر)حمایت کرتے ہیں۔آپ حکومت کی حمایت تو کرسکتے ہیں لیکن ہتھیار کے ساتھ، تباہی مچاکراور آگ زنی و دیگر ذرائع سے سرکاری جائیدادوں کو تباہ کرکے ایسا کرنا کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں ہوسکتا ہے۔

کیا یہ جھڑپیں حمایت یافتہ واقعات ہیں؟

ہوسکتا ہے! میں نے شہری ترمیمی قانون کے خلاف جاری احتجاج کے جیسا بنیادی سطح کا احتجاج کبھی نہیں دیکھا ہے اس کی بے ساختگی قابلِ ذکر ہے، اس میں کوئی لیڈر یا سیاسی پارٹی موجود نہیں ہے۔میں اس احتجاج کو 'فیملی پروٹسٹ' کہتا ہوں ۔طلباء کا آنا اور وہیں پر کلاسز کا چلایا جانا میں نے کبھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا ہے۔میں نے دہلی سے باہر لوگوں سے بات چیت کی ہے۔ دہلی میں جو کچھ ہورہا ہے اسکی گونج ہر جگہ سنائی دے سکتی ہے۔

کانگریس نے شدت کے ساتھ شہری ترمیمی قانون کی مخالفت کی ہے اور حزبِ اختلاف کی کئی حکومتوں نے اسکے خلاف قراردادیں منظور کی ہیں۔اس حوالے سے صحیح قانونی پوزیشن کیا ہے؟

اسکے دوپہلو ہیں،ایک قانونی پہلو ہے جسکے بارے میں میں چاہوں گا کہ عدالت فیصلہ لے۔دوسری بات یہ کہ کچھ کہنے سے تحریک کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور بہتر ہے کہ اس پر عوامی سطح پر بات نہ کی جائے۔البتہ اس تحریک میں ایک اور عنصر بھی ہے جس کا تعلق سیول نافرمانی سے ہے،گاندھی جی کے ستیہ گرہ سے ہے، مارٹن لوتھر کنگ، نیلسن منڈیلا اور خان عبدالغفار خان کے طریقہ سے ہے۔سیول نافرمانی سے متعلق کافی لٹریچر موجود ہے لیکن یہ زیادہ تر حکومتوں کے خلاف شخصیتوں سے متعلق ہے۔میں نے ابھی تک ایسا کوئی لٹریچر نہیں دیکھا ہے جو تشکیل شدہ حکومتویں منتخبہ نمائندگان کی سیول نافرمانی کی وضاحت کرتا ہو۔میں سمجھتا ہوں ہمارے وفاقی ڈھانچے کی وجہ سے یہاں سیول نافرمانی کا ایک عنصر موجود ہے جو شاید جوازیت بھی رکھتا ہو اور ،یقینا فیصلوں پر اخلاقی اثر رکھتا ہو۔امید ہے کہ سپریم کورٹ ان فیصلوں پر غور کرے گی۔

کانگریس کس طرح شہری ترمیمی قانون کے خلاف قومی سطح پر لڑے گی؟

کانگریس پارٹی نے شہری ترمیمی قانون کے خلاف ایک دانشمندانہ پوزیشن لی ہے اور اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف پولس کے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔ہمارے قائدین،راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی واڈرانے پولس کے ظلم کے خلاف قومی کونسل برائے انسانی حقوق سے رجوع کیا ہے۔ہم سے جس طرح بھی ہوسکے گا،ہم لوگوں کی حمایت کریں گے۔ہم نے اپنے ریاستی یونٹوں سے بھی( اس) قانون کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے کہا ہے۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ شہری ترمیمی قانون اور مجوزہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز اقلیتوں کو نشانہ بنانے کیلئے حکمران بی جے پی کے خفیہ ایجنڈا کا حصہ ہیں؟

میرے خیال میں ابھی یہ فرحت بخش بات ہے کہ سبھی فرقوں کے لوگ شہری ترمیمی قانون پر ردِ عمل ظاہر کررہے ہیں۔سرکار یہ کہتے ہوئے بڑا خوش ہوگی کہ یہ تو فقط خدشات کے شکار کچھ مسلمان احتجاج کر رہے ہیں البتہ اس قانون کے خلاف دلِت سامنے آرہے ہیں، سکھ آرہے ہیں اور متوسط درجہ کے روشن خیال ہندوآرہے ہیں اور یوں شہری ترمیمی قانون کے خلاف جاری احتجاج کو ایک طرح کی جامع آواز ملی ہے جسے اسی طرح بنائے رکھا جانا چاہیئے۔میرے خیال میں یہ آئینی حکمرانی کا بنیادی اصول ہے کہ لوگ احتجاج کرتے ہیں،وہ اس کے خلاف احتجاج نہیں کررہے ہیں انہیں اپنے لئے خطرہ محسوس ہورہا ہے، بلکہ وہ اس لئے سڑکوں پر ہیں وہ ایک بہتر ملک کی خواہش رکھتے ہیں۔

مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ نے حال ہی دہلی اسمبلی کیلئے ہوئے انتخابات میں شاہین باغ میں جاری شہری ترمیمی قانون مخالف احتجاج کو اُٹھانے کی کوشش کی لیکن انکی کوشش کامیاب نہ رہی۔آپ کا تبصرہ کیا ہے؟

ہمیں مودی یا امت شاہ کے جال میں نہیں پھنسنا چاہیئے بلکہ ایسے بیانات کو بس نظرانداز کرنا چاہیئے۔یہ جاری احتجاج آئین کیلئے ایک قابلِ ذکر مہم ہے۔

کانگریس قیادت کے مسلئے سے جھوجھتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔کیا پارٹی ایسے میں اس موقع پر اُٹھے گی؟

ہاں،یہ حقیقت کہ ہم لگاتار دو بار ہار کر اقتدار سے باہر ہوگئے ہیں جو باعثِ تشویش ہے۔لیکن ہم واپس لوٹیں گے، میں اس بارے میں پُراعتماد ہوں کہ آپ جلدی ایسا ہوتے دیکھیں گے۔ملک کی حالت ایسی ہے کہ کانگریس کہیں دور کھڑا نہیں رہ سکتی ہے،ہم سب جلد ہی باہر آئیں گے۔جہاں تک قیادت کا مسئلہ ہے سونیا گاندھی ہماری پارٹی صدر ہیں۔پھر ہمارے پاس راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اوردیگر قائدین کا ایک جُھرمٹ ہے۔وہ ایک اندرونی مسئلہ ہے اور اسے ہم پر چھوڑ دیا جانا چاہیئے۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 3:35 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details