سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) بہار کے صوبائی صدر نسیم اختر نے پارلیمنٹ سے پاس کرائے گئے بل - زرعی پیداوار تجارت (فروغ اور سہولت) بل 2020، زرعی (با اختیار اور تحفظ) قیمت اور زرعی خدمات اور ضروری اشیاء (ترمیمی) بل - پر رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ تینوں بل کسانوں کے فائدے کیلئے نہیں بلکہ اس بل سے کارپوریٹس کو فائدہ حاصل ہوگا۔ ‘‘
ایس ڈی پی آئی صوبائی صدر نسیم اختر نے مزید کہا ہے کہ ’’کسانوں نے حکومت کی اس یقین دہانی کو قبول نہیں کیا ہے جس سے کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) متاثر نہیں ہوگی۔ انہیں خدشہ ہے کہ مرکزی حکومت اوپن اینڈ ایف سی آئی کی خریداری کا موجودہ نظام ختم کردے گی۔ کسانوں کا خیال ہے کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی) اور دیگر مرکزی ایجنسیاں ریاستوں سے گندم اور چاول کی سالانہ خریداری کرنا بند کر دیں گی، جس سے وہ تاجروں کے رحم و کرم پر آجائیں گے۔ کسانوں کے ان خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔‘‘
مزید پڑھیں؛ اڑیسہ کے کاشتکاروں نے کسان بل واپس لینے کا مطالبہ کیا
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ایک بار راجیہ سبھا میں منظور ہونے والے بلوں سے ریاستوں کی ٹیکس کی آمدنی بھی ختم ہو جاتی ہے، یہ ملک کی وفاقی نوعیت کے برعکس ہے۔‘‘ نسیم اختر نے الزام عائد کیا کہ ’’مرکزی حکومت اسٹیک ہولڈرس کو ان امور سے متعلق تبادلہ خیال میں شامل نہ کرکے مطلق العنانی کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔‘‘
انہوں نے مرکزی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ بلوں کو نافذ کرنے سے قبل کسانوں کی جانب سے اٹھائے گئے خدشات کو دور کرے، ساتھ ہی نسیم اختر نے کہا کہ ’’پارٹی کسانوں کے ذریعہ اس بل کی مخالفت میں پورے ملک میں چلائی جا رہی تحریکوں کی مکمل حمایت کرتی ہے اور آنے والے 25 ستمبر کو اس کے خلاف بھارت بند و بہار بند کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے گزارش کرتی ہے کہ اس کسان مخالف بل، تعلیم کے نجی کرن اور سی اے اے مخالف مظاہرین کی گرفتاریوں کے خلاف بھارت بند کی کال کو مکمل طور پر کامیاب کرنے کی کوشش کریں۔‘‘