چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے، جج اے ایس بوپنا اور جج ہرشی کیش رائے پر مشتمل بنچ نے ہریانہ سرکاری زبان ایکٹ کی دفعہ۔ 3 اے میں ترمیم کو چیلنج کرنے والی عرضی یہ کہتے ہوئے خارج کردی کہ کچھ ریاستوں میں ہندی کو ماتحت عدالتوں کی سرکاری زبان بنائے جانے میں کوئی برائی نہیں ہے کیونکہ بیشتر وکلا وہاں ہندی میں ہی بحث کرنے میں بہتر محسوس کرتے ہیں۔ ایسی ریاستوں میں وکلا کے لئے انگریزی زبان ایک چیلنج کے طورپر ہوتی ہے۔
ہریانہ: ہندی کو عدالت کی سرکاری زبان بنانے کے خلاف عرضی خارج
سپریم کورٹ نے ہریانہ کی ماتحت عدالتوں میں ہندی کو سرکاری زبان بنائے جانے کو چیلنج کرنے والی عرضی کو خارج کردیا ہے اور عرضی گزاروں کو اپنی شکایت پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ لے جانے کی صلاح دی۔
وکیل سمیر جین، سندیپ بجاج، انگد سندھو، سوگیا اوستھی اور اننت گپتا نے عدالت عظمی میں عرضی دائر کی تھی۔ اس ترمیم کے ذریعہ ہریانہ کی عدالتوں میں صرف ہندی ہی سرکاری زبان ہوگی۔ سماعت کے دوران مسٹر سمیر جین نے دلیل دی کہ یہ ترمیم ان لوگوں کے مشکل کا باعث بنے گی جو ملک کے دیگر حصوں سے آکر ہریانہ میں بستے ہیں اور ہندی نہیں جانتے۔
عرضی میں کہا گیا تھا کہ انگریزی ملک میں سب جگہ بولی جاتی ہے۔ انگریزی زبان کو ماتحت عدالت سے ہٹانے کے سنگین نتائج ہوں گے۔ عرضی گزار کا کہنا تھا کہ ہریانہ حکومت نے متعلقہ ایکٹ میں یہ ترمیم کرکے آئین کے آرٹیکل 14،19اور 21کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے ذریعہ ہندی اور غیر ہندی زبان وکلا کے مابین ایک کھائی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔