سنہ 2012 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور اقتدار میں اس وقت کے کرناٹک اقلیتی کمیشن کے چئیرمین انور مانیپاڈی نے تقریباً 2 برس کی سروے کے بعد ریاست بھر میں اوقافی جائیدادوں کے ناجائز قبضوں کے متعلق ایک طویل ریپورٹ تیار کی تھی اور حکومت کو پیش بھی کی تھی جو "انور مانیپاڈی ریپورٹ" کے نام سے مشہور ہے۔
اس ریپورٹ پر تنازعہ کھڑا ہوا جب اس میں کانگریس پارٹی کے اعلیٰ لیڈران کے نام پایے گئے۔ ریپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کم و بیش 2،50،000 (ڈھائی لاکھ کروڑ) کی مالیت والی 29 ہزار ایکڑ اوقافی جائیداد پر ناجائز قبضہ ہوا ہے اور اس میں بیشتر اوقافی جائیداد پر ناجائز قبضہ ریاستی کانگریس کے بڑے لیڈران نے کر رکھا ہے'۔
انور مانیپاڈی ریپورٹ کے متعلق ای ٹی وی بھارت نے کانگریس پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی لیڈران و سماجی کارکنان سے حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ اس دوران انور مانیپاڈی ریپورٹ کے متعلق ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے واحد شخص، انور مانیپاڈی خود نے، جو کہ اس وقت کے اقلیتی کمیشن کے چیئیرمین رہے، تیار کی اور دستخت کیے تھے جس کی وجہ سے یہ کانگریس کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے اور کانگریسی لیڈران کا ماننا ہے کہ یہ ریپورٹ ایک جھوٹ کا پلندہ ہے۔'
جب کہ بی جے پی کے لیڈران کہتے ہیں کہ انور مانیپاڈی نے اس ریپورٹ کو دو برسوں کی مدت میں دورہ کر ریاست بھر کے مختلف اضلاع میں موجود اوقافی جائیدادوں کا سروے کر تیار کیا ہے اور قبضوں کے متعلق ثبوت اکٹھے کئے ہیں لہذا اس میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم یہ ممکن ہے کچھ معاملات میں ثبوت کا فقدان ہوگا۔'
انور مانیپاڈی ریپورٹ کو اسمبلی ہاؤس میں بحث کے لیے گذشتہ 8 برسوں میں پیش ہی نہیں کیا گیا۔ پچھلی کانگریس اور کانگریس و جے ڈی ایس کی مشترکہ حکومتوں میں اسے نظر انداز کیے جانے پر کرناٹک ہائی کورٹ کورٹ اور سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو پھٹکار لگایاتھا، اس ریپورٹ کو اسمبلی ہاؤس میں پیش کیا جائے۔ اب حال ہی میں وزیر اعلیٰ یڈیورپا نے ہدایت جاری کی ہے کہ اس ریپورٹ کو اگلے سیشن میں بحث کے لیے پیش کیا جائے۔