اترپردیش میں تبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قانون 2020 کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے والی عرضی پر سماعت آئندہ 15 جنوری کو ہوگی۔ چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس ایس ایس شمشیر کی بینچ نے اس سلسلے میں یہ حکم دیا۔
وہیں، اس معاملے میں ریاستی حکومت کی جانب سے ایک جوابی حلف نامہ بھی داخل کیا گیا ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے میں تاحال حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے۔
مزید پڑھیں:قومی اقلیتی کمیشن میں صحیح نمائندگی کے لیے جمعیت علماء سپریم کورٹ پہنچی
درخواست کے مطابق وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے 31 اکتوبر 2020 کو ایک بیان دیا تھا کہ ان کی حکومت 'لوجہاد' کے خلاف ایک قانون لائے گی۔ ان کا ماننا ہے کہ ہندو لڑکی سے مسلمانوں کی شادی مذہب تبدیلی کی سازش کا ایک حصہ ہے۔ یہ بیان آنے کے بعد آرڈیننس جاری کردیا گیا ہے۔
تاہم ایک بنچ نے سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مذہب کے دو بالغ افراد اپنی مرضی سے شادی کرسکتے ہیں۔ مذہب کو تبدیل کر کے شادی کرنے کو غلط نہیں کہا جا سکتا ہے۔ بنچ نے کہا کہ ہر شخص کو آئینی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کی جوڑی اور مذہب کا انتخاب کرے۔ یہ آرڈیننس سلامت انصاری کیس کے فیصلے کے منافی ہے اور آرٹیکل 21 میں زندگی کے حق کی خلاف ورزی ہے، لہذا اسے غیر آئینی قرار دیا جانا چاہیے۔
بہر کیف عدالت نے کوئی ریلیف نہ دیتے ہوئے ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ ریاستی حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ ریاست میں نظم و نسق، مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور معاشرتی تانے بانے کو مضبوط بنانے کے لیے یہ آرڈیننس ضروری ہے، اس معاملے میں اگلی سماعت 15 جنوری کو ہوگی۔