کورونا وائرس کے سبب یونیورسٹی انتظامیہ امتحانات آن لائن کرانے کے لیے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ان طلباء و طالبات کے لیے جو غریب گھر سے تعلق رکھتے ہیں اور جو آن لائن امتحانات نہیں دے سکتے ہیں، ان کے لیے یونیورسٹی کے سابق طلباء سے پچاس ہزار روپے فی طلبہ دینے کی اپیل کی۔
وائس چانسلر کی اس اپیل کے خلاف یونیورسٹی طلباء یونین کے سابق صدر شہزاد عالم برنی نے پریس کانفرنس کر کے وائس چانسلر کی اپیل کے خلاف سوالات اٹھائے ہیں۔ شہزاد عالم برنی کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے ایک اپیل یونیورسٹی کے سابق طلبہ سے کی ہے جس میں انہوں نے فی طلبہپچاس ہزار روپے دینے کی اپیل کی ہے۔ ایک بچے پر آن لائن امتحانات کا پچاس ہزار روپے خرچ آ رہا ہے لہذا ایک یونیورسٹی کے سابق طلبہ پچاس ہزار روپیہ دیں۔
شہزاد عالم برنی نے مزید کہا کہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب آج کل انٹرنیٹ، وائی فائی، کالنگ سب مفت ہے۔ ایک طرف تو گزشتہ پانچ چھہ سالوں میں 100 سے زیادہ اسمارٹ کلاس بنانے کا انتظامیہ دعویٰ بھی کرتی ہے۔ تو ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ پچاس ہزار روپے کہاں خرچ ہوں گے۔ اس سلسلے میں ہم نے آر ٹی آئی بھی داخل کی ہے جس میں ہم نے پوچھا ہے کہ وائس چانسلر یہ بتائیں کہ پچاس ہزار وہ کہاں خرچ کریں گے۔
وائس چانسلر کے ذریعے کی گئی اپیل دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ یونیورسٹی کوئی خیراتی مدرسہ نہیں ہے یہ مرکزی یونیورسٹی ہے، تو یونیورسٹی کا خرچہ بھی مرکزی حکومت اٹھائے نہ کہ سابق طلبہ، یہ ذمہ داری بھی حکومت کی ہے۔ تقریبا 115 کروڑ کا بجٹ بیٹھے گا جو سابق طلبہ سے مانگ رہے ہیں۔ 115 کروڑ میں ایک نئی یونیورسٹی کی تعمیر ہو سکتی ہے تو اس لیے وائس چانسلر کو چاہیے مرکزی حکومت کو لکھیں اور مرکزی حکومت سے پیسوں کا مطالبہ کریں نہ کہ یونیورسٹی کے سابق طلبہ سے۔
وائس چانسلر کو پیسے مرکزی حکومت سے مانگنا چاہیے کیونکہ یہ مرکزی حکومت کے اشارے پر چلتے ہیں۔ جب یونیورسٹی میں داخلے کا سلسلہ ہوتا ہے تو آر ایس ایس کے اشارے پر داخلے ہوتے ہیں اور جب یونیورسٹی میں خرچہ کا معاملہ آتا ہے تو یونیورسٹی سابق طلبہ سے مانگتے ہیں یہ رویہ نہیں چلے گا۔