بانی درس گاہ سرسید احمد خان نے جو بیج چھہ بچوں کے ساتھ مدرسۃ العلوم کی شکل میں 1875 میں علی گڑھ میں بویا تھا اس کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں تبدیل کرنے والے بل کو آج سے 101 برس قبل 9 ستمبر 1920 یعنی آج ہی کے دن امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں منظوری ملی تھی۔ اسی لئے آج کا دن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ کا ایک اہم اور تاریخی دن ہے۔
9 ستمبر 1920 کے بعد سے ہی محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے نام سے جانا گیا جو آج ایک تناور درخت بن چکا ہے، جس میں تقریباً آٹھ ہزار تدریسی و غیر تدریسی ملازمین، تقریباً 30 ہزار طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور تین مختلف مراکز بھی موجود ہیں۔
سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے آج کے دن کی اہمیت اور تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ مسلم یونیورسٹی فاؤنڈیشن کمیٹی نے اپنے اجلاس میں 26 جولائی 1915 کو مسلم یونیورسٹی ایسوسی ایشن قائم کی، جس میں تقریباً دو سو ممبران شامل تھے تاکہ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے طریقے اور ذرائع واضح کئے جائیں۔
22 مارچ 1920 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ کی تجویز کمیٹی کے 17 اراکین نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایسوسی ایشن کو پیش کی جس میں شیخ محمد عبداللہ، صدر یار جنگ، ڈاکٹر ایم اے انصاری، حکیم اجمل خاں، مولانا حضرت موہانی وغیرہ شامل تھے جنہوں نے مسودے کی منظوری دی۔