اے ایم یو کو لوگ صرف ایک علمی ادارہ سمجھتے ہیں لیکن اے ایم یو متعدد تاریخی وارثت کا بھی مرکز ہے جن میں مغلیہ دور اقتدار میں 18 ویں صدی میں تعمیر کردہ بھیکم پور گیٹ بھی شامل ہے جو آگرہ کے قلعے میں نصب تھا۔
جب سنہ 1833 میں برطانوی حکام نے قلعے کے قیمتی سامان کو نیلام کیا تو حاجی داؤد خان صاحب نے اسے خرید کر سنہ 1835 میں اپنی ریاست بھیکم پور میں اسے نصب کردیا۔ عبدالصبور خان شروانی جو خان موصوف کی اولاد میں سے تھے، نے سنہ 1961 میں اسے اے ایم یو کو ہدیہ کردیا۔ سنہ 1963 میں موجودہ جگہ یونیورسٹی فیض گیٹ کے قریب نصب کیا گیا۔
اے ایم یو کے ایسوسی ایٹ رکن انچارج شعبہ رابطہ عامہ ڈاکٹر راحت ابرار نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ سنہ 1835 میں انگریزوں نے جہاں مسلمانوں کے نشانات کو مٹانے اور انہیں منہدم کرنے کی کوشش کی وہیں انہوں نے اس دروازے کو بھی توڑ کر نیلام کر دیا تھا تاکہ مسلمانوں کا کوئی نشانی باقی نہ رہے۔ اس وقت یہاں پر بھیکم پور ریاست ہوا کرتی تھی جو اب بھی بہت مشہور ہے۔ داؤں خان نے اس دروازے کو خریدا اور انہوں نے اپنی ریاست بھیکم پور کا صدر دروازہ بنایا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی ریاستیں کم ہوگئیں تو انہوں نے اس دروازے کو یونیورسٹی کو دینے کی پیشکش کی تھی۔ یونیورسٹی نے اس دروازے کو عطیہ کے طور پر حاصل کیا اور جو فیض گیٹ ہے اس کے برابر اس گیٹ کو از سرنو تعمیر کیا۔
نواب عبدالصبود خان شروانی کے پوتے عبداللہ احمد کبیر شروانی نے بتایا جب انہوں نے عطیہ کیا تھا تو انہیں یورسٹی سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے ہاتھوں دروازہ برقرار رہے گا لیکن جب میں اور میری والدہ وہاں سے گزرتے ہیں تو اکثر دیکھتے ہیں وہاں پر الٹے سیدھے لوگ بیٹھے رہتے ہیں، لوگ پیشاب کرتے ہیں، وہاں پر گھاس پڑی ہے، چھت گری ہوئی ہے اس حساب سے یونیورسٹی اس کو برقرار نہیں رکھ پا رہی جس طرح سے اس کو برقرار اور محفوظ رکھنا چاہیے۔'