نئی دہلی:اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کسان برادری جو تین متنازع زرعی قوانین کے خلاف ایک برس تک احتجاج کیے، انہیں مطمئن کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت 2023-24 کے بجٹ میں زراعت کے شعبے پر توجہ دے سکتی ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن بجٹ میں کسانوں کو تحائف دے سکتی ہیں۔ ویسے بھی زراعت کے شعبے کو ہمیشہ ایک ایسے شعبے کے طور پر دیکھا گیا ہے جس میں بہت زیادہ آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ڈیلوئٹ انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ شعبہ ملک کے لیے $800 بلین سے زیادہ کی آمدنی اور 2031 تک $270 بلین سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ رپورٹ میں تجویز پیش دی گئی ہے کہ حکومت زرعی شعبے کو جدید بنانے اور ایگری ٹیک اسٹارٹ اپس کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیکنالوجی کو اپنانے میں معاونت کے لیے پالیسیاں متعارف کرائے۔
صنعتی ادارے پی ایچ ڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے رواں ماہ کے شروعات میں جاری کردہ اپنے پری بجٹ میمورنڈم میں کہاکہ "ہم معیشت میں روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے زراعت اور فوڈ پروسیسنگ کے شعبے میں مزید اصلاحات کی تجویز دیتے ہیں۔" زرعی انفراسٹرکچر، دیہی انفراسٹرکچر لاجسٹکس اور کولڈ چین ریفارمز میں عوامی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، کیونکہ اس سے فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری اور دیہی انٹرپرینیورشپ کی سطح کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے عالمی زراعت اور خوراک کی برآمدات میں شرکت بڑھے گی۔ زرعی اور فوڈ پروسیسنگ مصنوعات کی برآمدات کو 2021-22 میں تقریباً 50 بلین ڈالر کی موجودہ سطح سے بڑھا کر اگلے تین برسوں میں 100 بلین ڈالر کی سطح تک لے جانا چاہیے۔