کووِڈ 19- کے موجب کورونا وائرس نے دنیا کو تعطل کا شکار کرکے دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔نقل و حمل میں بڑھتی ہوئی پابندیوں کی وجہ سے ممالک ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ہیں۔ فقط درماندہ شہریوں یا کچھ خاص زمروں میں آنے والوں کو ہی بیرونی ملکوں سے نکالنے یا لے جائے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
اندرون ممالک اور بیرونی سرحدوں کو بند کیا جاچکا ہے۔معیشتیں سُست روی میں ہیں،صنعتیں بند اور مملکتیں تالہ بند ہیں جبکہ سفر اور سیاحت جیسے تو ماضی کی بات بن چکی ہیں۔ ائیر لائنز اور دیگر ذرائع لائف لائنز اور مالی امداد کی تلاش میں ہیں تاکہ وہ خود کو بنائے رکھ سکیں جبکہ دنیا کے قائدین کیلئے ابھی اپنے شہریوں کے صحت کی دیکھ بال اور صنعت و معیشت کو سنبھالنا بنیادی مقصد بنا ہوا ہے۔ تنہائی اور سماجی فاصلہ کی سنگین صورتحال میں پابندی کے بعض ایسے اقدامات کئے جاچکے ہیں جنکی وجہ سے لوگوں کا آزادی کے ساتھ سفر، سیاحت یا ہجرت کیلئے دیگر ممالک جانا متاثر ہوسکتا ہے۔
22 اپریل کو صدر ٹرمپ نے کووِڈ 19-کی وبا کے مابعد معاشی بحالی کے دوران امریکی لیبر مارکیٹ کیلئے خطرہ بن سکنے والے امیگرنٹس کیلئے‘‘ داخلہ بند کرنے کے اعلان پر دستخط کئے۔اس میں واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے ملک کے امیگریشن نظام کی انتظامیہ میں ہمیں امریکی لیبر مارکیٹ پر غیر ملکی ورکروں کے اثرات کو ذہن میں رکھنا چاہیئے ، باالخصوص درونِ خانہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور کام کی تلاش کے پُر تناؤ ماحول میں۔ پہلے سے پسماندہ اور بے روزگار امریکیوں کو کامیاب ملازمتوں کے حوالے سے نئے قانونی اور مستقل باشندوں کی وجہ سے پیدا شدہ مقابلے کی دوڑ سے بچانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ موجودہ امیگرنٹ پروسیسنگ پروٹکشنز کووِڈ 19-کی وبا سے بحالی کیلئے ناکافی ہیں۔ علاوہ ازیں اضافی مستقل باشندوں کو متعارف کرنے سے ہمارے نظامِ صحت پر بوجھ بڑھتا ہے ایسے میں جب ہمارے ہیلتھ کیئر ذرائع محدود ہیں، وہ بھی ان حالات میں جب ہمیں امریکیوں اور موجودہ مہاجر آبادی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا کی روشنی میں ،میں نے طے کیا ہے کہ اگلے 60 دنوں میں بعض غیر ملکیوں کا داخلہ امریکہ کے مفادات کیلئے نقصان دہ ہوگا‘‘۔ پہلے سے معطل امریکی ویزاؤں پر نظرِ ثانی میں کافی طویل وقت لگ سکتا ہے اور یہ سب صدر ٹرمپ کی سنہ 2015-16 میں انتخابی تقاریر اور انکے ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ پر زور دینے کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ یہ اس بات پر بھی منتج ہوتا ہے کہ امریکہ کے سبھی مسائل کیلئے امیگرنٹ ورک فورس ذمہ دار ہے حالانکہ یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ امریکہ مہاجروں کا ملک ہے کہ جنکی شراکت سے ہی یہ ایک ہائیپر پاور ملک بن سکا ہے۔ اسی طرح کی مہاجر مخالف بیان بازی یورپی ممالک میں بھی عام ہورہی ہے، جہاں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔یہ ایک خطرناک رجحان ہے یہاں تک کہ اگر قلیل المدت اسکے سیاسی فوائد بھی ہوں۔
بھارت میں 30ملین انتہائی کامیاب تارکین وطن ہیں جن میں غیر رہائشی بھارتی (این آر آئی) اور بھارتی نژاد افراد (پی آئی او) شامل ہیں جو بیرون ممالک میں معتبرئت حاصل کرچکے ہیں۔ ان میں سے کئی مغرب میں ملٹی نیشنل کارپوریشنز کی سربراہی کررہے ہیں۔انہوں نے سائنس، طب، صنعت، زراعت اور کاروبار کے شعبوں میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔سلیکون ویلی میں بھارتی سافٹ وئیر پیشہ ور اور کمپنیاں گولڈ اسٹنڈارڈ بن چکی ہیں اور امریکہ کے اعلیٰ ترین علمی معیشت بننے میں انکا اہم کردار ہے۔ یہ لوگ ایچ آئی بی پروفیشنل ویزاؤں کے سب سے بڑے دعویدار ہیں حالانکہ یہ بھارتی اور امریکی حکام کے بیچ موضوعِ بحث رہا ہے۔یہاں تک کہ کئی ایسے کامیاب سیاستدان کئی ممالک کے وزرائے اعظم اور سربراہانِ مملکت تک بن چکے ہیں۔یہ فخر کی بات ہے کہ برطانیہ میں وزرائے خزانہ و داخلہ اسی زمرے سے تعلق رکھتے ہیں۔