بہار کے سینٹرل لیچی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں اسی ماہ سے اس طرح کے تجربہ کی ابتدا کی گئی ہے۔ سال میں تقریبا ایک ماہ روزگار اور آمدنی دینے کے بعد غیرآباد رہنے والے لیچی کے یہ باغ مرغوں کی بانگ اور اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کی چہل پہل سے آباد ہورہے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر وشال ناتھ نے بتایا کہ اس تجربہ سے لیچی کے غیرآباد باغ میں زندگی کی گہما گہمی نظرآرہی ہے اور مستقبل کے نظریہ سے امید کی نئی کرن نظر آرہی ہے۔
ڈاکٹر وشال ناتھ نے ماہی پروری اور ڈیری کے مرکزی وزیر گری راج سنگھ کے مشورہ پر لیچی کے باغ میں اس طرح کا تجربہ شروع کیا ہے جس کے سلسلے میں مقامی لوگوں میں زبردست جوش ہے۔
بہار اینیمل سائنس یونیورسٹی کے وائس چانسلر رامیشور سنگھ کے مشورہ پر انسٹی ٹیوٹ کے لیچی کے باغ میں دیسی نسل کے پرندے متعارف کرائے گئے ہیں۔ مرغیوں کی نسلوں میں ون راجہ، گرام پریا، کڑک ناتھ، کیری نربھک، اصیل وغیرہ شامل ہیں۔ یہ مرغے مرغیاں دیسی نسل میں بہتری کرکے تیار کی گئی ہیں۔
مرغیوں کی یہ قسمیں قوت مدافعت سے لیس ہونے کے ساتھ ہی غیر مناسب صورت حال میں بھی زندہ رہنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ ان میں بیماریاں کم ہوتی ہیں۔ پروٹین زیادہ اور چربی کم ہوتی ہے جس سے دل کی بیماری، بلڈ پریشر اور کچھ دوسری بیماریوں سے متاثر لوگ بھی اسے اپنے کھانے پینے کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ ان پرندوں میں مرنے کی شرح کافی کم ہے، جس سے نقصان کا خطرہ بھی کم ہے۔
کالا کڑک ناتھ طبی فوائد سے پُر ہے۔ کئی مقامات پر کالی ماسی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اس پرندے کا گوشت بھی کالا ہے۔ ایک وقت یہ نسل نایاب ہوگئی تھی۔ یہ نسل اب انڈین ایگری کلچرل ریسرچ کونسل کی کوششوں سے ملک کے کونے کونے میں نظرآرہی ہے۔ لوگ اس کے ایک انڈے کی قیمت پچاس روپے تک ادا کردیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ایکڑ لیچی کے باغ رکھنے والے کسان 500 سے 700 مرغیوں کو آسانی سے پال سکتا ہے اور دو ایکڑ کے باغ میں مرغ پالنے والے کسان روزانہ ہزاروں روپے کی آمدنی کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ باغ میں ورمی کمپوسٹ تیار کرسکتے ہیں اور نرسری بھی لگائی جاسکتی ہے جس سے کسان مزید آمدنی حاصل کرسکتے ہیں۔