کانگریس ترجمان سپریہ شرينیت نے کہا کہ' ملک گہرے اقتصادی بحران کے دور سے گزر رہا ہے، انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ریزرو بینک کے حال میں آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال پہلے بینکوں کا قرض کی شرح 7.36 لاکھ کروڑ روپے تھی جو آج 88 فیصد کم کر محض ایک لاکھ کروڑ روپے تک سمٹ گئی ہے۔
حکومت کساد بازاری کی اصلیت قبول کرے انہوں نے کہا کہ اگر قرض کی شرح اسی طرح سے گر رہی ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ملک میں اقتصادی سرگرمیاں منجمد ہو گئی ہیں۔ حکومت کو اس اصلیت کو قبول کرنا چاہئے اور کساد بازاری روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی معیشت کے لیے نجی سرمایہ کاری، عوامی سرمایہ کاری، برآمدات اور مال کی کھپت سب سے اہم ہوتی ہے لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران اقتصادی ترقی کے یہ چاروں معیار منفی میں رہے ہیں اور حکومت چاروں خانے چت نظر آ رہی ہے۔
معیشت کے تمام شعبوں میں کمی درج کی جا رہی ہے، اس لیے جو ماہر اقتصادیات اقتصادی ترقی کی شرح پانچ فیصد ہونے کے حکومت کے اندازے پر شک کا اظہار کر رہے ہیں ان کی بات میں حقیقت نظر آتی ہے۔
کانگریس ترجمان نے کہا کہ حکومت معیشت کو درست کرنے کے لیے کسی بڑے اقدامات کرنے کے بجائے پیوندلگانے جیسے قدم اٹھارہی ہے۔ اس سے بحران سے نجات نہیں ملے گی اس لیے معیشت کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ معیشت کو نقصان پہنچانے والے چھوٹے چھوٹے سراخوں کو بند کرنے سے اب کام چلنے والا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر قرض نہیں لے رہے ہیں تو اقتصادی سرگرمی نہیں چلے گی اور اگر اقتصادی سرگرمی نہیں رہے گی تو اقتصادی ترقی کے امکانات بالکل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریزرو بینک کا ستمبر میں صارفین سروے کے اعداد و شمار آیئے تھے جس میں نصف سے زیادہ لوگ مانتے ہیں، ملازمتوں کا امکان اب نہیں ہے۔ لوگوں کا معیشت پر اعتماد کم ہوگیا ہے۔ حال میں دہلی میں اقتصادی کانفرنس ہوئی ہے اور ایمیزون جیسی کمپنی نے سرمایہ کاری میں کٹوتی کی ہے۔
نجی سرمایہ کاری، عوامی سرمایہ کاری کم ہوئی ہے، كنزمپشن نہیں ہے اور برآمدات کم ہوئی ہے، لہذا معیشت نہیں بڑھے گی۔ تازہ اعداد و شمار بہت چونکانے والے ہیں اور اس بارے میں حکومت کو سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ معیشت کمزور ہے اور حکومت کو یہ تسلیم کرنا چاہئے۔ اس یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی روک کام چلنے والا نہیں ہے۔