میڈیا کے مطابق یہ حکم امریکی جاسوس ڈرون کو ایران کی جانب سے مار گرائے جانے کے ردِ عمل میں دیا گیا تھا۔
نیویارک ٹائمز نے وہائٹ ہاؤس کے سینیئر اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے خبر شائع کی ہے کہ ’مٹھی بھر‘ اہداف کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ آپریشن مبینہ طور پر 'اپنے ابتدائی مراحل' میں تھا جب ٹرمپ نے امریکی فوج کو رک جانے کا حکم دیا۔
ایران کا دعویٰ ہے کہ ایک بغیر پائلٹ کا طیارہ جمعرات کی صبح اس کی فضائی حدود میں داخل ہوا جبکہ امریکہ کا مؤقف ہے کہ اس کے طیارے کو بین الاقوامی فضائی حدود میں گرایا گیا۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تناؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
امریکہ نے حال ہی میں ایران پر خطے میں موجود آئل ٹینکروں پر حملوں کا الزام عائد کیا ہے جبکہ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی اپنے نیوکلیئر پروگرام کی بین الاقوامی طور پر طے شدہ حدود کو عبور کرے گا۔
نیویارک ٹائمز کیا کہتا ہے؟
نیویارک ٹائمز نے امریکہ کے مبینہ حملوں کی تفصیلات ابتدائی طور پر جمعرات کو رات گئے شائع کی تھیں۔ اس کے بعد کئی امریکی میڈیا اداروں نے آزادانہ طور پر یہ خبر رپورٹ کی۔
اخبار کا کہنا تھا کہ مقامی وقت کے مطابق شام 7 بجے (گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق رات 11 بجے تک) امریکی عسکری اور سفارتی حکام امید کر رہے تھے کہ طے شدہ اہداف یعنی ایرانی ریڈار اور میزائل سسٹمز کو نشانہ بنایا جائے گا۔
اخبار نے ایک نامعلوم سینیئر انتظامی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "طیارے فضاء میں اور بحری جہاز اپنی پوزیشنز سنبھال چکے تھے مگر پھر رک جانے کا حکم آنے پر کوئی میزائل فائر نہیں کیا گیا۔"
'بہت بڑی غلطی'
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جانب سے امریکی ڈرون مار گرائے جانے کے ردعمل میں کہا ہے کہ ’ایران نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔‘
اس سے پہلے امریکہ نے تصدیق کی تھی کہ ایران نے اس کا ایک فوجی ڈرون مار گرایا ہے۔
امریکی حکام نے کہا تھا کہ ایران کی جانب سے ان کے ایک فوجی ڈرون کو آبنائے ہرمز کے اوپر بین الاقوامی فضائی حدود میں زمین سے فضا میں داغے گئے ایک میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔