یہ مقبرے خوبصورت محرابوں، طاق اور بلند گنبدوں والی ایک بڑی ساخت ہیں۔ تمام مقبروں میں احمد شاہ ولی کا مقبرہ سب سے مشہور ہے۔ سلطان احمد شاہ بہمنی بن داود شاہ بہمنی 1422 کو تخت نشین ہوئے۔ انھوں نے 1430 میں دارالحکومت گلبرگہ سے بیدر منتقل کی اور پرانے قلعے کو دوبارہ تعمیر کرایا۔
احمد شاہ بہمنی کا مقبرہ دور حاضر کے تناظر میں احمد شاہ بہمنی ایک مذہبی حکمراں تھے۔ وہ گلبرگہ کے خواجہ بندہ نواز اور بعد ازاں کرمان شاہ نعمت اللہ سے عقیدت رکھتے تھے۔ انھیں لنگایتس کے نظریے کا بھی احترام کیا گیا ، جو دکن کا ایک مذہبی حکم نامہ تھا ، جو فلسفی، سیاستداں اور سماجی مصلح بساوانا نے قائم کیا تھا۔
احمد شاہ ولی بہمنی کا گنبد انتہائی پر شکوہ عالیشان ہے جس کے اندرونی طلائی نقش ونگار سنہرے حرفوں میں آیت قرآنی تحریر کی گئی ہیں اس تحریر میں لفظوں کی جگہ ہیرے جڑے گئے ہیں۔
سلطان علاءالدین شاہ کا مقبرہ علاوہ اس کے مرکزی حصے میں گیارہ ہیروں کی مدد سے خوبصورت پھول بنایا گیا تھا جو تاریکی میں چمکتا رہتا تھا۔
موجودہ دور میں لوبان عود اور ابابیلوں کے گھونسلوں سے مقبرے کا اوپری حصہ کالا ہوگیا ہے۔ جس کی چمک ماند پڑ گئی ہے، اس گنبد کو علاءالدین شاہ بہمنی نے اپنے دور حکومت میں تعمیر کرایا تھا۔
احمد شاہ بہمنی کا مقبرہ دور حاضر کے تناظر میں
احمد شاہ بہمنی علم شناس و علم دوست حکمران تھے اور ایک رحم دل بادشاہ بھی تھے۔ سلطان احمد شاہ بہمنی سے منسوب ایک مشہور واقعہ ہے کہ جب وہ تخت نشیں ہوئے اسی برس شہر میں سخت قحط سالی کا واقعہ پیش آیا، ندی نالے اور کنویں تالاب خشک ہوگئے عوام بے انتہا پریشان ہوگئی۔
رحم دل بادشاہ سے عوام کی بےبسی دیکھی نہ گئی، احمد شاہ نے انتہائی رنجیدہ ہو کر حکم دیا کے خزانے کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے جائیں اور ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔
کہا جاتا ہے کہ سلطان احمد شاہ بہمنی نے ایک سال کی طویل مدت تک رعایا کی تمام ضروریات کی تکمیل کی، مگر جب دوسرے سال بھی بارش نہ ہونے کے سبب قحط مسلسل قائم رہا احمد شاہ بہمنی نے پھر سے رعایا کی ضرورت کو پورا کرنے کا حکم دیا۔
سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کا مقبرہ بعدازاں علمائے کرام سے گزارش کی کہ نماز استسقاء و دعاؤں کا اہتمام کریں۔ علماء مشائخین کے علاوہ تمام رعایا نے مسلسل نمازوں دعاؤں کا اہتمام کیا، مگر حالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی تب اک روز احمد شاہ بہمنی نماز استسقاء ادا کرنے کے لیے شہر سے دور ایک بلند مقام پر پہنچے اور نماز ادا کی اور عاجزی و انکساری سے اللہ سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے۔
احمد شاہ بہمنی کا مقبرہ دور حاضر کے تناظر میں ابھی دعا میں مصروف ہی تھے کہ آسمان پر بادل ڈھلکنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلادھار بارش ہونے لگی یہ منظر دیکھنے کے بعد رعایا نے شور مچانا شروع کردیا کہ احمد شاہ بہمنی ولی ہے ہم نے اپنی آنکھوں سے ان کی ولایت دیکھی ہے۔
سلطان احمد شاہ ولی بہمنی نے بارہ سال سے زائد حکومت کی اور سنہ1435 کو اس دارفانی سے عالم بقا کو رحلت فرمائی۔
سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے عرس کی تقریب ہر سال ہولی تہوار کے بعد چاند کی 20 تاریخ سے شروع ہوتی ہے۔ جس میں بلا مذہب و ملت تمام مذاہب کے ماننے والے لوگ عرس کی تقاریب میں شرکت کرتے ہیں۔
مسلم بادشاہوں کی رواداری رعایا سے محبت بعد از مرگ اس قدر شان و شوکت کے ساتھ قائم ہیں تو حیات میں کس قدر ہوا کرتی ہوں گی۔
سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے مقبرے کے علاوہ سلطان علاءالدین شاہ، سلطان ہمایوں، ملکہ جہاں کے علاوہ خاندان بہمنیہ کے مختلف مزارات یہاں پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پر دو مساجد بھی ہیں جن میں سے ایک مسجد میں نماز ادا کی جاتی ہے۔