ان میں "عثمان ساگر" حسین ساگر " حمایت ساگر" کے علاوہ "میرا تالاب" شاہ حاطم تالاب" موتی تالاب" ابراہیم باغ تالاب " لنگر ہاوس تالاب"، سرونگر تالاب " موسی ندی اور دیگر تالابوں کنٹوں قطب شاہی حکمران اور آصف جاہ حکمران کے دور میں تعمیر کیے گئے تھے۔
حیدرآباد کے تالابوں میں گندگی، پانی کی قلت، متعلقہ ویڈیو ان تالابوں میں صرف دو تالابوں کا پانی ہی صاف اور شفاف ہے، جس میں عثمان ساگر اور حمایت ساگر ہے۔ اس کے علاوہ شہر حیدرآباد کے دیگر جھیلوں اور تالابوں میں گندگی موجود ہے۔آصف جاہی دور حکومت میں حیدرآباد شہر میں 500 سے زیادہ جھیلیں اور تالاب موجود تھے۔ لیکن اب صرف چند تالابوں بچے ہوئے ہیں، جن کی حالت بدتر سے بدتر ہوتی جارہی ہے ۔حیدرآباد میں جھیلیں اور تالاب ختم ہونے کی وجہ سے حیدرآباد کے کئی علاقوں میں میں پانی کی قلت دیکھی جارہی ہے۔ٹیوب ویل کی گہرائی 500 فٹ تک بھی جاتی ہے تو پانی نہیں نکلتا۔ اس کی وجہ سے پانی کے ٹینک کے ذریعہ ہے حیدرآباد کے مختلف محلہ جات میں پانی سربراہی کی جارہی ہے۔حیدرآباد کے 30 این جی اوز نے واٹر ریچارچ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا اور ان کا مقصد یہی ہے کہ حیدرآباد جو پہلے پانی کا شہر تھا وہ بر قرار رہے۔ برسات میں بارش کا پانی روڈ اور گھروں کی وجہ سے زمین کے اندر نہیں جا رہا ہے بلکہ نالیوں کے ذریعے شہر کے باہر چلے جارہے ہیں۔نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2040 تک زمین کے اندر پانی باقی نہیں رہے گا۔ زمین کا پانی باہر نکالا جارہا ہے، لیکن پانی واپس زمین میں جائے اس کے راستے بند کر دیے جارہے ہیں۔ حیدرآباد و سکندرآباد کو روزانہ تقریباً 261.40 لیٹر پانی استعمال کیا جاتا ہے ۔حیدرآباد کو پانی عثمان ساگر 9.09کروڑ لیٹر پانی لیا جاتا ہے۔ حمایت ساگر سے 3.63 کروڑ لیٹر پانی لیا جاتا ہے، ناگرجنا ساگر سے 122.74 کرو لیٹر پانی لیا جاتا ہے۔اس باوجود بھی تقریباً 50 کروڑ لیٹر پانی پانی کی کمی ہوتی ہے۔ حیدرآباد کے تالابوں اور جھیلوں کو صاف و شفاف کر دیا گیا تو جو پانی کی کمی ہو رہی ہے وہ مکمل ہو جائے گی۔