اس کی زندہ مثال ریاست جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے غمگین مجید ہیں۔
پلوامہ کے ناربل گاؤں کے رہنے والے مجید گذشتہ 39 برسوں سے سماجی بہبود کے لیےکام کر رہے ہیں۔
ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے ان برسوں میں 165 بار خون کا عطیہ دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں خون کا عطیہ کرنے کی اس قدر عادت ہو گئی ہے کہ وہ ایک ہی ماہ میں کئی بار خون کا عطیہ کر دیتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ عطیہ نہیں دیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بیمار ہیں اور عطیہ کے بعد ہی وہ خود کو صحت مند محسوس کرتے ہیں۔
جب بھی خون کے عطیہ کی بات ہوتی ہے تو مجید کا ذکر نہ ہو، ایسا ہو نہیں سکتا۔
مجید ایک سوشل ورکرز کمیٹی کے سرپرست اعلی ہیں اور اس کے بیشتر ممبران بھی اب خون کا عطیہ دینے لگے ہیں۔ مجید کو ان کے اس کام پر انہیں درجنوں اعزازات اور انعامات و اسناد سے نوازا گیا ہے جبکہ محکمہ صحت، تعلیم، سماجی بہبود سمیت متعدد محکموں کی جانب سے کئی بار ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
تاہم وہ مانتے ہیں کہ انہیں اسناد اور اعزازات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیوں کہ بہ قول ان کے کسی کی جان بچانا ہی بڑی سند، اور انعام ہے اور یہی بڑا کام ہے۔ ان کے اہل خانہ جو پہلے پہل انہیں ایسا کرنے سے روکتے تھے، اب ان کے اس کام میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
چنانچہ وہ وقت اور دو عطیوں کے دورانیے کو یاد رکھے بغیر ہی اکثر ہسپتالوں میں خون کا عطیہ دینے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ اب حالات یہ ہے کہ ڈاکٹرز ہی انہیں عطیہ دینے سے روکتے ہیں تاکہ ان کی صحت پر کسی طرح کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ مگر مجید کو تو جیسے خون کا عطیہ کرنے کی دھن سوار ہے وہ کچھ بھی پرواہ کئے بغیر عطیہ دے کر ہی راحت کا سانس لیتے ہیں۔
غمگین مجید پورے معاشرے کو انسانیت کا درس دے رہے ہیں۔ یہ کار خیر نہ صرف ہم سب کے لیے ایک سبق بلکہ قابل تقلید عمل ہے اور یہی ہمدردی اور ایک دوسرے کو مدد کرنے کا جذبہ ہمیں انسانیت کے بامِ عروج تک پہنچاتا ہے۔