یہ ملازمین عارضی طور پر وزارت برائے اقلیتی امور میں مختلف ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔
ذرائع سے موصول اطلاع کے مطابق عارضی ملازمین کو ایک معاہدے کے تحت رکھا گیا تھا اور ہر سال ان کے معاہدے کی تجدید ہوتی تھی لیکن جب انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہوا، اس کے بعد سیکرٹری برائے اقلیتی امور نے ان کے کنٹریکٹ کی تجدید نہیں کی۔
ای ٹی وی بھارت نےجب اقلیتی وزارت کے سیکریٹری سیلیش سے رابطہ کیا تو انہوں نے کال اور مسیج دونوں کا جواب نہیں دیا۔
اس معاملے میں اقلیتی وزیر کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ضابطۂ اخلاق کے نفاذ کے بعد وزراء کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا ہے اس لیے ان 45 ملازمین کے بیروزگار ہونے میں مختار عباس نقوی کا کوئی ہاتھ نہیں۔
انتخابی موسم میں جاری بے روزگاری کی بحث میں وزارت برائے اقلیتی امور کے ذریعے نکالے گئے 45 لوگوں کا معاملہ بی جے پی کے لیے بڑا درد سر بن سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں کیا کارروائی کی جاتی ہے؟